اسلام آباد (عترت جعفری) توقعات کے عین مطابق صدر مملکت نے 6نومبر کو قومی الیکشن کی تجویز دی ہے۔ صدر مملکت کی طرف سے یہ خط آئندہ اہم قومی اور سیاسی مضمرات کا حامل ہوگا، اور ملک کے اندر آراءکی مزےد تقسےم کا باعث بنے گا۔ اس خط کا فوری نتےجہ ےہ ہے کہ اس سے بعض سیاسی جماعتوں کے مو¿قف کو تقویت ملے گی جو 90 روز کے اندر انتخابات کرانا چاہتی ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں انتخابات کے انعقاد کو دیکھ رہی ہیں۔ اس خط کی وجہ سے اب سیاسی جماعتوں کو واضح طور پر الیکشن کے بارے میں اپنے موقف کو بیان کرنا پڑے گا۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی آئی واضح طور پر نوے دن کے انتخابات کی بات کرتی رہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی 90 دن کے اندر انتخابات کرانے پر زور دیتے رہے ہیں، پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا کراچی مےں اجلاس ہوا تھا جس مےں آئینی میعاد کے اندر انتخابات کی بات کی گئی ، پی پی پی کی سنٹرل اےگزےکٹو کا دوسرا اجلاس آج لاہور میں طلب کیا گیا ہے، جس میں صدر مملکت کے الیکشن کمیشن اف پاکستان کو لکھے جانے والے خط پر غور کیا جائے گا، اب تک کی صورتحال کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کا الیکشن کے انعقاد کے لیے موقف پی ٹی آئی، اور صدر مملکت کے موقف سے قریب تر نظر آتا ہے، مگر پیپلز پارٹی کے اندر اس بارے میں مختلف آرا بھی موجود ہیں۔ پارٹی کے کچھ حلقے اس بات کے حق میں نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی انتخابات کے مسئلے کو لے کر ٹکراو¿ کی پالیسی اختیار کرے، صدر مملکت کا خط منظر عام پر آنے کے بعد جب اس معاملے میں پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما سے جو پارٹی اجلاس کے لئے لاہور مےں موجود تھے رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کے اس خط کی وجہ سے سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوگا، سی ای سی کے آج کے اجلاس میں اس خط پر غور کیا جائے گا، تمام ارکان کی رائے پوچھی جائے گی اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کے موقف کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔