ہفتہ‘ 9 ربیع الاول 1446ھ ‘ 14 ستمبر 2024

       کرونا کا خدشہ ہے، اویس لغاری ماسک پہن کر ایوان پہنچ گئے۔ دل کرتا ہے جپھی ڈال دوں: عمر ایوب.
توانائی کے وزیر اویس لغاری کہتے ہیں کہ ان کو کورونا کی علامات ہیں مگر ابھی ٹیسٹ نہیں کرایا۔ عمر ایوب نے اس موقع پر کہا کہ دل کرتا ہے ان کو جپھی ڈال لوں۔ کرونا ایک سے دوسرے کو ہی نہیں تیسرے چوتھے آٹھویں دسویں اور پچاسویں ساٹھویں کو بھی ہو جاتا ہے مگر اب یہ اتنا خطرناک نہیں رہا جتنا اپنے آغاز میں تھا۔ کرونا میں مبتلا شخص کے گھر والے اسے ہسپتال پھینک جاتے۔کتنے ڈاکٹر اور میڈیکل سٹاف کے لوگ علاج کرتے کرونا میں مبتلا ہو کر اگلے جہان پہنچ گئے تھے۔ جنازے شروع میں کس طرح ہوتے تھے بلکہ کئی کے جنازے تو ہوئے ہی نہیں۔ کفن دینا اور میت کو نہلانا بھی ناممکنات میں سے تھا۔ وہ دورہوتا تو لغاری صاحب یوں کہہ رہے ہوتے، نہ گھوم پھر رہے ہوتے۔ بہرحال اسمبلی میں اپوزیشن نے ان کو ایوان چھوڑنے پر ”آمادہ“ کر دیا۔ عمر ایوب کو ان پر پیار آیا یا کرونا پر؟ ہو سکتا ہے عمر ایوب کرونا پروف ہوں .اس لیے جپھی ڈالنے کو ان کا دل کیا۔ کرونا جیسی بیماری کسی کو نہ ہو۔ اس کے باوجود کہ یہ پہلے کی طرح اب خوفناک اور ہلاکت خیز نہیں ہے۔ آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹ نے صارفین کا تن من جلا دیا ہے۔ وہ انکو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے، ان کی طرف سے عوام کے چودہ طبق روشن جبکہ گھر اور کاروبار اندھیروں سے بھر دیئے گئے ہیں۔ یہ کتنے ظالم ہیں۔ جتنے بھی ظالم ہیں۔ اویس لغاری کی ان سے میل ملاقاتیں ہوتی ہیں مگر ہم قطعی مشورہ نہیں دیں گے کہ وہ ان کو کرونا سمیت جپھی ڈال کر ملیں۔البتہ کوئی دہشتگرد جو بغیر جیکٹ کے ہو اسے بلا تامل جپھی ڈال لیں۔
دن گن رہے ہیں راولپنڈی معاہدے پر عمل کروائیں گے، حافظ نعیم الرحمن۔
امیر جماعت اسلامی جس معاہدے کی بات کر رہے ہیں اس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جانی ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔جسے یہ معاہدہ کہہ رہے ہیں ایک طبقے کے مطابق حکومت اسے جھانسا سمجھتی ہے۔چند روز قبل حافظ صاحب یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ جماعت اسلامی کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔
سیاسی اتحادوں کی بات عموماً انتخابات سے قبل یاحکومت گرانے کی کوشش کے لیے انتخابات کے بہت عرصے بعد کی جاتی ہے۔ اس پارٹی کو اتحاد کی ضرورت نہیں ہوتی جو تن تنہا خود کو الیکشن جیتنے یا حکومت گرانے کی پوزیشن میں سمجھتی ہے۔ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں حکومت بنتے ہی اسے گرانے کے منصوبے شروع ہو جاتے ہیں۔ حافظ صاحب کو شاید الیکشن سر پر آتے نظر آگئے ہیں جن میں جماعت اکیلے ہی سب سے نمٹ لے گی۔ کئی جماعتیں ان کی مقبولیت کے پیش نظر ان کے ساتھ اتحاد کی متمنی ہونگی تو امیر جماعت نے خبردار کر دیا بس بھئی بس، زیادہ بات نہیں۔ کوئی اتحاد کی دستک دے کر خود شرمندہ ہو نہ ہمیں کرے۔ گویا اتحاد کی دکان پر بورڈ لگا دیا کہ ادھار بند ہے۔ جو جماعت کے کندھے پر سوار ہو کر ایوان میں جانا چاہتے تھے وہ مایوس ہونگے۔ مایوس تو وہ لوگ بھی ہوئے جو جماعت اسلامی کے دھرنے سے بجلی کے بلوں اور مہنگائی میں کمی کی امید لگا کر بیٹھے تھے۔ جماعت کی دھرنے سے قبل کی اڑان اور اٹھان قابل دید تھی۔ دھرنے کے نتائج کا سوچ کر پر امید عوام کی عید تھی۔نوے کی دہائی میں قاضی صاحب بھی ایسے ہی اٹھے اور جماعت کو اٹھایا تھا۔ جماعت نے نعرہ مستانہ” ظالمو! قاضی آ رہا ہے“ بلند کر کے کاخ امرا کے درو دیوار ہلا دیئے تھے۔جماعت نے اب بھی ایسا ہی دھرنے کے موقع پر ماحول بنا دیا تھا۔ حکمرانوں کے قدموں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی تھی۔ اب قاضی صاحب کی طرح حافظ صاحب شمشیر برہنہ بن گئے تھے۔حکومت نے مذاکرات کئے اور دھرنے کی جنگ جو دھوپ اور حبس میں مہنگائی اوربجلی بلوں کے ساتھ جاری تھی، ٹھنڈے کمرے میں آسانی سے ختم ہوگئی۔ یہ بل نصف کرانے آئے تھے ،حکومت نے عین اسی روز اڑھائی روپے اضافہ کر دیا۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ بل کم کر دیں گے کوئی مدت بھی طے ہوئی تھی۔ جماعت پر یقین ہے کہ حکومت وعدہ پورا کرے گی۔ وعدہ وفا نہ کیا تو ایک بارپھر جماعت ہوگی دھرنا ہوگا اور دما دم مست قلندر ہوگا۔ حکومت کو خوف کے مارے اب تو وعدہ نبھانا ہی پڑے گا۔ جب صارفین کو اتنا بڑا ریلیف ملے گا تو جماعت کی مقبولیت آسمان سے باتیں کیوں نہیں کرے گی۔ ایسے میں اسے کسی سے اتحاد کی کیا ضرورت ہے۔
 میئر کراچی کا جناح روڈ ٹوٹنے پر سخت ایکشن۔ دو افسر عہدوں سے ہٹا دیئے۔
یہ سڑک عروس البلاد کراچی کے اندر ٹوٹی ہے۔ نئی نئی بنی تھی ابھی اس کی لش پش نہیں اتری تھی کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ عموماً دور افتادہ علاقوں میں ٹھیکیدار بڑی ایمانداری سے کام کرتے اور جن سیاستدانوں کے حصے کے ترقی کاموں میں یہ سڑکیں آتی ہیں ان کو دیانتداری سے حصہ دیتے ہیں۔ان ٹھیکیداروں کے گھروں کے کھرے یا غسلخانے پچیس تیس سال بھی نہیں ٹوٹتے مگر سڑک بغیر بارش اور دھوپ کے اگلے روز ادھڑی پڑی ہوتی ہے۔ کیونکہ بجری پر تارکول نہیں سڑا ہوا موبل آئل چھڑک دیتے ہیں۔ اب جن افسران بالا و اعلیٰ کو ہٹایا گیا ان کو اس جگہ تعینات کر دیا جائےگا جہاں نئی سڑک بننی ہے۔ یہ سب کچھ پولیس محکمہ تعلیم جنگلات اوربجلی سمیت ہر محکمے میں ہوتا ہے۔ سڑک پرانی تھی۔ اس میں گڑھا پڑ گیا۔ شاہِ ایران کا گزر ہوا ٹھیکیدار کو بلالیا۔ اس گڑھے میں لٹا کے بلڈوزر اوپر سے چلوا دیا۔ ایران میں کہیں کوئی سڑک اس کے بعد کبھی نہیں ٹوٹی۔قم شہر کے درمیان میں ایک عمارت کا ملبہ پڑا ہے یہ کبھی سکول تھا۔ نئی عمارت تعمیر ہوئی۔ چند ماہ میں دراڑیں پڑ گئیں۔ روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے ذمہ داروں کو عمارت کے اندر کھڑا کر دیا اور جہاز سے بم گرا دیا۔ عمارت کا ملبہ عبرت کے لیے آج بھی وہیں پڑا ہے۔ہمارے یہاں ایسی سزائیں نہیں دی جاسکتیں۔کم از کم ان کو ٹی وی پر لا کر ہی ان سے پوچھ لیا جائے کہ کتنا لگایا اور کتنا کھایا؟۔
سیشن جج اور لیڈی ڈاکٹر کے مابین جھڑپ، تلخ جملوں کا تبادلہ۔
توہین عدالت کا قانون ابھی تک موجود ہے۔ جج صرف عدالت میں ہی نہیں ہر جگہ اور ہر وقت جج ہوتا ہے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں ججوں کے کنڈکٹ پر بات ہونے لگی۔ اجلاس میں سیکرٹری قانون بھی موجود تھے۔ انہوں نے اجلاس کے دوران کہا کہ میں ہائیکورٹ کا جج بھی ہوں۔ عدلیہ کے بارے میں مزیدایسی باتیں ہوئیں تو یہیں بیٹھے بیٹھے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دوں گا۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سیشن جج صاحب نے قتل کے کیس میں ڈاکٹر کو عدالت میں طلب کیا تھا۔ روسٹرم پر کھڑے ہو کر انہوں نے کہا کہ مجھے اور بھی کام ہوتے ہیں۔ مجھے سمن نوٹس کیوں جاری کیا گیا۔ کچھ ججوں کے بارے میں آج جس طرح کی کچھ لوگ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اب بڑے بھی ”حوصلہ“ پکڑنے لگے ہیں۔ حالیہ ماہ و سال میں جس طرح توہین عدالت پر سزائیں ہوئیں ضرورت عبرت پکڑنے کی ہے۔ جج صاحب نے برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر کی سرزنش تو کی مگر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ البتہ یہ ضرور باور کرا دیا کہ آپ کے بیان نہ ریکارڈ کرانے کی وجہ سے قتل کیس عرصہ سے لٹکا ہوا ہے۔ عدالت نے درجنوں بار آپ کو بلایا آپ ایک بار فون سننے کے بعد فون آف کر دیتی ہیں، ہر چیز کا ریکارڈ موجود ہے۔ عدالت کی یہ نرمی آپ سے ہضم نہیں ہو رہی۔ عدالت آپ کے ماتحت نہیں، آپ عدالت کو ہدایت نہ دیں۔ آپ عدالت کے اختیارات نہیں جانتیں۔ آپ خاتون ہونے اور عدالتی نرمی کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ عدالت آپکو ہتھکڑی لگوا کر گرفتار کر کے بھی بلا سکتی ہے۔یہ سن کر ڈاکٹر نے چپ سادھ لی۔ ایک چپ سو سکھ۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...