سیرت نگاروں کی اکثریت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول بروز سوموار ہوئی-ابن کثیر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بھی سوموار کے دن، بعثت بھی سوموار کے دن، مکہ سے ہجرت بھی سوموار کے دن، مدینہ میں تشریف آوری بھی سوموار کے دن اور رحلت بھی سوموار کے دن ہوئی-حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے خلق کی تخلیق فرمائی تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے میں رکھا۔ پھر گھرانوں کو چنا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں رکھا لہٰذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے ممتاز ہوں-(ترمذی)۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین اور محسن انسانیت ہیں- آپ خلق عظیم یعنی اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے-اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک کنویں کے قریب سے گزر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو پانی کا مٹکا اپنے سر پر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بڑھاپے کی وجہ سے اٹھایا نہیں جا رہا تھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا مٹکا اپنے سر پر اٹھا لیا اور بوڑھی مائی کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھ دیا بوڑھی مائی نے کہا بیٹا بہت شکریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا سہارا بنے۔ میرے پاس کوئی کھجور روٹی کا ٹکڑا اور سکہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صلہ کے طور پر دے سکوں مگر بیٹا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نصیحت کرتی ہوں کہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نام کا ایک شخص نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے ان کو آباو¿ اجداد کے دین سے ہٹا رہا ہے بیٹا اس کی باتوں میں نہ آنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ماں جی میں احترام کے ساتھ آپ کی بات سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ میں ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن صبح ایک ٹوکری بوڑھی عورت کے گھر کے باہر رکھ دی جس میں روٹی کھجوریں اور چند سکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے پر دستک دی تاکہ بوڑھی مائی ٹوکری اٹھا لے۔ دستک دینے کے بعد آپ واپس چلے آئے تاکہ بوڑھی مائی شرمندہ نہ ہو - بوڑھی مائی نے ٹوکری دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھ لیا-ایک مستند روایت کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عالم سے چند اشرفیاں قرض لیں کچھ دن گزرنے کے بعد ہی یہودی قرض واپس لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فی الحال تمہارا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے- یہودی نے کہا جب تک آپ میرا قرض واپس نہیں کریں گے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑوں گا- صحابہ کرام نے یہودی کو ڈانٹ کر بھگانا چاہا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس بیٹھے رہے یہاں تک کہ رات گزر گئی اور صبح ہو گئی - یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت اور اختیار کے باوجود برداشت کا مظاہرہ کیا - یہودی نے نہ صرف قرض معاف کر دیا بلکہ اسلام قبول کر کے اپنی ساری دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دی ( دلائل النبوہ)۔
بھارت کے نامور لیڈر مہاتما گاندھی نے اپنے ایک بیان میں تسلیم کیا میں کسی ایسی ہستی کی سوانح کی تلاش میں تھا جس نے بنی نوع انسان کے کروڑوں دلوں پر غیر متنازعہ مشفقانہ قبضہ کر رکھا ہو اور بالاخر میں اس حقیقت کا قائل ہو گیا کہ یہ تلوار نہیں تھی جس نے اس زمانے میں اسلام کے لیے جگہ بنائی ہو بلکہ یہ پیغمبر اسلام کی انتہائی سادگی جان نثاری ایثار معاہدوں کی پابندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت دیانت خدا خوفی بے باکی اپنے خدا پر مکمل بھروسہ اور اپنے مشن کی صداقت پر یقین جیسی حقیقتیں تھیں- انہی تابندہ حقیقتوں نے اپنے سامنے ہر رکاوٹ کو تسخیر کر لیا نہ کہ تلوار نے-( معاملات رسول صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے موقع پر اپنے غلام زید بن حارثہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا - زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق اور رویے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ نہ صرف نبوت پر ایمان لے آئے بلکہ انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ واپس گھر جانے سے بھی انکار کر دیا اور ساری عمر آپ کی خدمت میں گزار دی-
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی سادگی سے گزاری۔ نبوت سے پہلے بھی وہ بکریاں چرایا کرتے اور بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔ نبوت کے بعد بھی انہوں نے یہ کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہ کی۔ وہ ہمیشہ اپنے کام خود کرتے تھے اور نوکروں سے کام نہیں کراتے تھے- حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے آپ کو دنیاوی کاموں میں دوسروں سے ممتاز نہیں سمجھا- جیسے سب لوگ اپنے گھروں میں کام کرتے ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اپنے کپڑے سیتے خود ہی جوتیاں گانٹھ لیتے تھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کی تعمیر میں شریک ہوئے اور مزدور کی طرح کام کیا۔ غزوہ خندق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کی کھدائی میں بھی حصہ لیا-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان سے کبھی فحش اور بے ہودہ کلمہ نہیں نکالتے تھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی پر لعنت کرتے تھے-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب صحابہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے لیے بددعا کرنے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لعنت کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں-سلیمان ندوی رحمت اللہ نے اپنے خطبات میں فتح مکہ کے دن مشرکین کی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا-مکہ جب فتح ہوا تو حرم کے صحن میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں اور نجاثتیں پھینکی گئیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز منظور ہوئی قریش کے تمام سردار مفتوحہ کھڑے تھے - ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے - وہ بھی تھے جو آپ کو جھٹلایا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جو آپ کی ہجویں کہا کرتے تھے- وہ بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکے تھے اور ان کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کا خون ناحق کیا تھا ان کے سینے چاک کیے تھے اور ان کے دل و جگر ٹکڑے ٹکڑے کیے تھے۔ وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے، ان کے سینوں پر اپنی جفا کاری کی آتشیں مہریں لگاتے تھے، ان کو جلتی ریت پر لٹاتے تھے، دہکتے کوئلوں سے ان کے جسم داغتے تھے- آج یہ سب مجرم سر نگوں تھے۔ پیچھے 10 ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارے کی منتظر تھیں-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کی دہلیز پر کھڑے تھے ان کو اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سب سر جھکائے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے بتاو¿ آج میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں۔ انہوں نے جواب دیا تو ہمارا کریم بھائی ہے اور کریم بھائی کا بیٹا ہے- دوسرے ہی لمحے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر کوئی دوش نہیں۔ جاو¿ تم سارے کے سارے آزاد ہو- انسانی تاریخ میں تحمل اور برداشت کا اس سے بہتر اور کوئی نمونہ نہیں ملتا-ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی گلیوں میں گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو روتے ہوئے دیکھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کے قریب گئے اور پوچھا بیٹا تم کیوں رو رہے ہو۔ بچے نے کہا یا رسول اللہ میری نہ ماں ہے نہ باپ ہے، میں یتیم ہوں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھا اور شفقت سے کہا آج سے میں تمہارا باپ ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا تمہاری ماں ہے۔ آپ اس بچے کو اپنے گھر لے آئے- کاش اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال کردار سے سبق سیکھ سکیں-