محبت کے دعوے دار

 محبت کائنات کا سب سے بڑا احساس، حیات کا سب سے بڑا راز ،زمیں و آسماں کی وسعتوں سے کہیں آگے ہر انتہا کی انتہا ، ہر جذبے میں موجزن۔ 
محبت انسان سے ہو یا انسان کے خالق سے۔اس کی ہر کیفیت دل ودماغ پہ سحر کی طرح طاری ہونا ضروری ہے۔محبت محبوب کی ذات میں فنا ہونے کا نام یے۔اس کی رضا پہ راضی رہنا محبت کی معراج ہے۔ محبت اپنی ذات کو مٹانے اور انا سے باہر نکلنے کا نام ہے محبت میں مٹانے کا نام یے محبت اپنی ذات کی نفی کا نام ہے
جہاں محبوب راضی وہی محب کی جنت ارضی۔
زمینی محبت آسمانی محبت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ آسمان والا زمیں والوں پہ مہربان ہے اور اپنی بارگاہ میں قبولیت کا شرف تب بخشتا ہے جب اس کے بندوں پہ مہربانی کی جائے ان سے محبت کا حق ادا کیا جائے۔ رب کائنات نے اپنی محبت کو دوبالا کرنے کے لیے اپنے محبوب کو اس کائنات میں بھیجا اپنا لطف وکرم دوبالا کیا۔خالق کائنات نے خود فرمایا
اور محبوب کی زبان میں لوگوں تک راز کی بات پہنچائی 
”کہہ دیجے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گااور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے“۔
 ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات اللہ کی بات ہے کیونکہ انہوں نے کبھی اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کی ان کا ہر عمل رب کی رضا کے تابع ہے۔
 یہ ماہ مبارک ربیع الاول میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے۔ 
اس ماہ مبارک کا ہر دن ہر لمحہ ایک دلکش اور مہکی ہوئی کیفیت سمیٹتے دل کی پیاسی زمیں پہ ساون کی پہلی بارش کی طرح برستا ہے اور وجود مہکتا ہے۔ ایک خوشی یے جو دلوں میں ٹھہری ہوئی یے۔
لوگوں میں ایک چہل پہل ہے ان کے چہروں پہ تازگی یے رونق ہے ۔گلی محلوں اور شاہراہوں کو سجایا جا رہا ہے۔یہ سنہری روشنی جب کسی لمحے دل کی گلیوں سے گزرتی ہے تو دل جہاں روشن ہوتا ہے وہاں اسے کچھ ندامت بھی محسوس ہوتی ہے۔ اک کسک سی دل کو بے چین کرتی ہے۔ہم نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے دعوے دار ہیں، 
کیا کبھی محبت کا حق بھی ادا کیا ہے دل کی گلیوں کو ان کی یاد سے روشن کیا ہے؟
کیا ان کی کبھی کسی ایک بات کو بھی زندگی میں اپنایا ہے۔محبت کے دعوے دار کے لیے لازم ہے کہ جو محبوب کہے وہ اس پہ عمل کرے۔لفظی محبت اور عملی محبت میں فرق ہوتا یے۔عملی محبت محبوب کی خاطر بےخطر کود پڑتی ہے اسے سودو زیاں کاخوف نہیں ہوتا یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔
ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان سے محبت کا عملی ثبوت نہیں دیتے۔اگر حقیقی معنوں میں محبت کر رہے ہوتے تو ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرتے۔ وہ تو فرماتے ہیں مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا وجود تکلیف میں مبتلا ہو جاتاہے۔ آج ہمارا المیہ ہے ہم ایک دوسرے دوسرے کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتے، ہم بےحسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس تو دوسروں کی دلجوئی کے لیے لفظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
آج اگر ہم پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات پہ عمل کرتے تو فلسطین میں اپنے پیارے بےگناہ بہن بھائیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ ان کی تکلیف میں ان کے لیے ڈھال بنتے۔ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا حق ادا کرتے تو سب کی عزت کرتے اپنے جیسے لوگوں کی بےجا تذلیل نہ کرتے ان کی عزتیں نہ اچھالتے دوسروں کے عیب چھپاتے بھوکوں کو کھانا کھلاتے ملاوٹ نہ کرتے، کسی کو دھوکا نہ دیتے ، غم زدہ کے لیئے ڈھال بنتے۔ 
حدیث قدسی ہے 
اللہ کی ذات نے فرمایا یہ ساری کائنات میرا کنبہ یے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ یے جو میرے کنبے کے ساتھ اچھا ہے۔
اللہ کی بے بس مخلوق کی مدد کرنے والوں کو سلام۔
جو آج کے اس بےحس دور میں بےبس کی مدد کرتے ہیں ایسے ہاتھوں پہ بیعت کرنے کو جی چاہتا ہے جو ہاتھ کسی کی مدد کے لیے اٹھتے ہیں جو کسی کے رزق روزی کے کفیل ہوتے ہیں۔ یقیناً ان پہ اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان کے لیے اللہ کے فرشتے بھی دعاکرتے ہیں
میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا 
بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدے مند ہو۔ 
اپنی اپنی ذات کا محاسبہ کریں۔ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے تو ان کی خاطر آج تک کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کتنے لوگوں کے راستے ہموار کیے کتنوں کے لیے آسانیوں کا باعث بنے۔
محبت عملی ثبوت مانگتی ہے۔
غلام ہونے کے نعرے لگانے سے غلامی قبول نہیں ہو گی۔ جب تک ان کی بات پہ عمل نہ ہوا بات نہیں بنے گی۔ وہ تو فرماتے ہیں جواپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرو۔ 
کیا ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر نہیں ہونا۔ آج ہمارے لہجوں سے لے کر ہماری بات چیت تک سب میں برتری اور فخرو غرور نظر آتا ہے۔ ہم باتوں سے دوسروں کو زخم دیتے ہیں۔ کسی کے کسی ایک عیب کو لے کر اسے ذلیل ورسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ 
ہم سمجھ نہیں پارہے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا پسند ہے۔ جو انہیں پسند ہے اسی پہ ہماری بات ختم ہونی چاہیئے ہماری حیات و ممات کااختتام ان کی بات پہ ہونا چاہیئے۔ 
آج ہمیں سب سے زیادہ جو ضرورت ہے وہ اپنا محاسبہ کرنے کی ہے، ہم سب نے اپنی اپنی محبت کا صلہ پانا ہے۔ اپنی آپ بنائی ہوئی جنت میں جینا ہے، آپ اپنی قبر کو گلزار بنانا ہے۔ جو اس دنیا میں عزت اور محبت کے بیج بوئے گا وہ ادھر گلزار جنت میں رب کائنات کا مہمان ہو گا، پھول کلیوں کا حق دار ہو گا۔ 
بات صرف دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنے کی ہے، محبوب کی خاطر جینے مرنے کے ہے۔ اس کی امت پہ مہربانی کرنے کی ہے، دلوں سے بغض نفرت اور حسد ختم کرنے کی ہے، دوسروں کو اہمیت دینے کی یے، عجز اور فقر اپنانے کی یے تو پھر 
یہ دنیا جنت یے، اور یہی عارضی جنت مستقل جنت کا پیش خیمہ بنے گی۔
کروڑوں درود وسلام بارگاہ رسالت مآب 
یہ میری سانسیں درودوسلام پڑھتی ہیں 
میں دل میں اس کو پکاروں تو وہ بھی سنتا ہے 
میرے طبیب میرے حال پہ کرم کرنا 
میرا جو دکھ ہے فقط اس کو تو سمجھتا ہے 
کہیں سکوں ہی نہ آئے ہجوم دنیا میں 
تیرا ہو ذکر کہیں پر تو دل سنبھلتا ہے

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...