”اپنی چھت ،اپنا گھر “پراجیکٹ اور” قلم مزدور“!

محترم عطاءالحق قاسمی کا کالم گزشتہ دنوں نظروں سے گزرا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی گزشتہ تقریباً6ماہ کی کارکردگی کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا گیاکہ کس طرح ان کی زیر سرپرستی صوبے بھر میں اب میرٹ کا بول بالا ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ مریم نواز صاحبہ وزارت اعلیٰ کی ذمہ داریوں کا کانٹوں بھرا تاج سر پر سجا کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے جن فلاحی منصوبوں کا افتتاح کر رہی ہیں وہ خوش آئند لیکن ان کے نتائج آنے والے دنوں میں کیا نکلیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا البتہ اب یہ بات ذہن میں ضرور رکھنا ہوگی کے عوام نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے بہت سی توقعات وابسطہ کی ہوئی ہیں جنہیں بروئے کار لانے کیلئے اب کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جانا چاہئے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ انصاف کی فراہمی ،سفارش کلچر اور کرپشن کا خاتمہ کئے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے گھروں کی سہولت ہمیشہ سے ہی ناپید رہی۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی25 کروڑ آبادی میں سے 1کروڑ کے لگ بھگ کو ”اپنی چھت“کی سہولت سے میسر نہیں،ہر سال7لاکھ سے زائد افراد بے گھر افراد کی لسٹ میں شامل ہورہے ہیں۔ ریئل سٹیٹ سیکٹر میں گھروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ کمرشل بینکوں نے گھروں کی تعمیر کیلئے 75ارب روپے سے زائد کے قرضے جاری کئے لیکن اس سے غرباءکی بجائے امراءمستفید ہوئے۔پنجاب حکومت نے شفافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب جس طرح تعلیم ،صحت اور زراعت پر خصوصی توجہ دینے کے علاوہ ”اپنی چھت،اپنا گھر“منصوبہ شروع کیا ہے وہ یقیناً دیگر صوبوں کیلئے قابل تقلید ہے۔ 
عطاءالحق قاسمی کا یہ کہنا بجا ہے کہ ”اگرکوئی کسی بھی حکمران کی غلطیاں نکالنے پر آجائے تو اسے ایک نہیں بہت سی بآسانی مل جائیں گی لیکن اگر آپ اس مشن پر ہیں کہ فلاں کی کردار کشی کرنا ہے تو پھر اس کی تلاشی لینا ضروری نہیں“ لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ سیاست سیاست کا کھیل کھیلنے والی حکومتیں اور ان کے ارباب و بست و کشاد صرف کرسی کے معاملات میں الجھے رہے اور اس آپا دھاپی میں عام عوام کے ساتھ ساتھ ”قلم مزدوروں“کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔2007ءمیں پنجاب حکومت کی منظوری کے بعدصحافی کالونی کے ایکسٹینشن ایف بلاک کی اراضی خریدنے کیلئے کم و بیش 30کروڑ روپے گرانٹ منظور کی گئی لیکن غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی عدم توجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑتا چلا گیا جس پر2011ء میں ایف بلاک کور کمیٹی نے اسمبلی کے سامنے 23دن کا دھرنا دیاجس میں چیئرمین شیر افضل بٹ، وائس چیئرمین اسجد شہزاد،سیکرٹری جنرل راقم،سیکرٹری اطلاعات صبا ممتاز بانو،فوزیہ غنی،سینئر کالم نگار میم سین بٹ، زاہد شفیق طیب،خواجہ اعجاز،عبید اللہ عابد،عمران علی نومی،محمد شاہد،فرمان قریشی،عبدالستار چودھری،نوشاد احمد،مقیم چودھری،بشیر احمد،سکندر بھٹی،خواجہ ریاض اویس،عبدالرحیم لغاری ،آصف بٹ،طاہر بخاری،نواب مقبول،رانا شہزاد،مدثر خان اور دیگر سا تھی بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے۔”کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے“2014ء میں میاں محمدشہباز شریف کی خصوصی شفقت سے موضع دھونی چند میں 181کنال کے لگ بھگ جگہ خریدکر اس کے ارد گرد چاردیواری کر دی گئی لیکن مقام افسوس کہ 10برس گزرنے کے بعد بھی ممبران کو ڈیمارکیشن نہیں دی گئی،یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ صحافی کالونی میں بی بلاک کے بیشتر مکین گزشتہ24جبکہ ایف بلک کے الاٹیز 17 برس سے الاٹمنٹ اور پوزیشن لیٹرز ہونے کے باوجود ”اپنی چھت“سے محروم ہیں اور اب تو فیز2کا مسئلہ بھی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔پی جے ایچ ایف حکام کی غفلت اور عدم توجہی سے باﺅنڈری وال جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ،مین ہولز کے ڈھکن غائب جبکہ مین گیٹ اور سکیورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لنڈ مافیاز نے دیواریں توڑ کر تجاوزات قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔
 اولاد کی اچھے خطوط پرنشوونما اورمستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ہر انسان تگ دو کرتا ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی یہ کاوش کب رنگ لائے گی؟ ،زندگی اسے مہلت دیتی بھی ہے کہ نہیں؟۔ ایف بلاک میں ”اپنی چھت“ کا آنکھوں میں سپنا سجائے کور کمیٹی کے سرگرم ممبران حنیف عاصم،شاہد شیخ ،طارق مسعود،کوثر شمسی،آصف علی پوتا،طارق خورشید ،مظہر جوئیہ ،اخلاق باجوہ اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے ،کئی ممبران بستر علالت پر ہیں لیکن مقام افسوس کہ اس مسئلے کو تاحال سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ حکومت پنجاب کے ”اپنی چھت، اپنا گھرپروگرام “کے تحت مالی طور پر کمزور طبقوں کو رہائش فراہم کرنا خوش آئند امر ہے۔دیہات میں 10مرلے اور شہروں میں 5 مرلے تک رہائشی پلاٹ کے مالکان کو 15لاکھ روپے تک جو بلا سود قرض فراہم کیا جا رہا ہے اسکی تقریباً 14ہزار روپے ماہانہ اقساط میں واپسی ہو گی۔ نجی ہاﺅسنگ سکیموں میں آسان اقساط سے3 سے5مرلہ تک کے گھر جبکہ بڑے شہروں میں سرکاری زمینوں پر 4 منزلہ فلیٹس تعمیر کرکے قرعہ اندازی کے ذریعے لوگوں کو مہیا کئے جانے کا فیصلہ بھی قابل تحسین ہے۔ انقلابی ہاوسنگ پراجیکٹ کے اجراءسے جہاں لاکھوں افراد کو روزگار ملے گاوہیں لاکھوں خاندان بہتر زندگی گزار سکیں گے لہٰذا وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف میڈیا انڈسٹری کے بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر صحافی کالونی کو درپیش مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کے فلاحی پراجیکٹ میں ایف بلاک کے 295مکینوں کو بھی7مرلے کے حساب سے30لاکھ روپے بلا سود قرض اوربلا تفریق ہیلتھ کارڈ دینے کے احکامات صادر کردیں تو یقیناً ناصرف انکی نیک نامی میں مزید اضافہ ہو گا بلکہ اس مقدس پیشہ سے وابسطہ افراد اور ان کے خاندانوںکی ہمدردیاں اور دعائیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کے شامل حال ہو جائیں گی۔

محبوب احمد چودھری----نقطہ ٔ  نظر

ای پیپر دی نیشن