سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستانیوں کو بہت ہو ش سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہم سیاسی طور پر بہت ہی نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔یہ ملک بنا تھا جمہوریت کے لیے جس میں کہ انصاف ہونا تھا،اور یہاں پر میری مراد صرف اور صرف کرمنل جسٹس کا نظام ہی نہیں بلکہ معاشی اور سماجی انصاف بھی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہم روز اول سے ہی جمہوریت کو روندتے چلے گئے،یہ جو تمام سلسلہ ہے،اس وقت شروع ہوا جب خواجہ ناظم الدین کو بر طرف کیا گیا یہ اقدام اس ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کی جانب پہلا قدم تھا۔یہی سے اصل خرابی شروع ہو ئی اور معاملات خراب ہونا شروع ہو ئے۔اس سے بھی پہلے لیاقت علی خان کو بھی منظر عام سے ہٹایا گیا،جس سے ملک کو اور جمہورت کو شدید نقصان پہنچا۔اس کے بعد عوام اور جمہوریت ایک دوسرے سے کوسوں دور ہو تے چلے گئے،لیکن شاید بنگالیوں کے ہو تے ہو ئے،غیر جمہوری قوتوں کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے تھے لہذا بنگالیوں کو قو م سے الگ کر دیا گیا اور ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری بیرونی قوتوں پر ڈال دی گئی تھی،تاریخ چونکہ 50سال کے بعد لکھی جاتی ہے اس لیے ابھی تک سچ بتانے کی نوبت نہیں آئی ہے،لیکن آہستہ آہستہ کر کے تمام حقائق سامنے آجاتے ہیں،لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کی نظریں بہت تیز تھیں،ان کی سمجھ بوجھ اور سیاسی ادراک بلکہ کہنا چاہیے کہ ان کا سیاسی وجدان بہت ہی بہترین تھا اور ان لوگوں میں عبدلکلام آزاد بھی شامل تھے اور ان جیسے لوگوں نے بہت پہلے سے ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ ملک ٹوٹے گا اور اکھٹا نہیں رہ سکے گا اور ہم نے اس جیسے لوگوں کی سوچ کو سچ ثابت کر دکھایا ہے۔موجودہ پاکستان میں بھی جمہوری سوچ کا فقدان ہے،جمہوری سوچ نہ ہی پنجاب میں ہے،سندھ میں کسی حد تک ہے،بلوچستان میں بھی طرز فکر اور سوچ کچھ الگ ہے جبکہ خیبر پختون خواہ میں اس حوالے سے پیمانہ الگ ہی ہے۔نہ ہی ہماری لیڈرشپ اس قوم کو اس سلسلے میں کو ئی سپورٹ فراہم کرسکی ہے۔یقینا ہمیں اس حوالے سے معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے سیاست دانوں کو بھی اس سلسلے میں اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اب تک اس حوالے سے ناکام ہی رہے ہیں۔نہ جانے کب اور کیسے کوئی لیڈر شپ پیدا ہو گی جو کہ ملک کو حقیقی معنوں میں حقیقی جمہوریت کی ڈگر پر لے کر چلے گی؟سابق وزیر اعظم عمران خان کو قدرت نے ایک سنہرا موقع دیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کو ئی بہتر کام کرتے،لیکن وہ یہ کام نہیں کرسکے وہ تو اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکے بہر حال اگر اس کے بعد بھی 2024ء کے الیکشن میں وہ الیکشن جیت کر بر سر اقتدار آرہے تھے تو انہیں آنے دینا چاہیے تھا اور اور فارم 47ءکی حکومت آنے سے اور کوئی فائدہ ہو ا یا نہیں ہو ا لیکن آئین کو پا مال کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔بڑی خوش قسمتی کی بات تھی کہ موجودچیف جسٹس
کی شکل میں ہمیں ایک ایسا جج ملا جس نے کہ اپنے اختیارات کو کم کرتے ہوئے انہیں اپنے برادر ججز میں تقسیم کیا اور ایسے فیصلے بھی لیے جو کہ قابل تحسین ہیں،لیکن ان کو بھی کام کرنے نہیں دیا گیا۔ہم نے ضرورت سے زیادہ جلد بازی میں فیصلے کیے ہیں،اور اس روش کا ہمیشہ نقصان بھی اٹھایا ہے۔دوسروں پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن اپنے آپ پر نظر نہیں ڈالتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے؟جلسہ کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں جمہور کا حق ہو تا ہے،لیکن ہمارے ملک میں بد قسمتی سے اس حوالے سے بھی ماضی اچھا نہیں رہا ہے اور یہاں تو جلسے کے لیے ایسی ایسی شرائط رکھی جاتی ہیں کہ 3 گھنٹے کے اندر اندرجمع بھی ہو جائیں اور جلسہ بھی کر لیں اور چلے بھی جائیں،یہ تو ایسا ہی ہے کہ ساس بہو کو کہتی ہے کہ آٹا گھو ندھتے وقت ہلتی کیوں ہو؟ بس ایسا ہی حال ہمارے ملک کی سیاست کا بھی ہے اور ہمارے سماج کا بھی ہے جو کہ بد قسمتی کی بات ہے،جلسہ کرنے کی اجازت دے ہی دی ہے تو پھر کرنے دیں خوا مخواہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے بد مزگی کیوں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔جلسے میں تقریریں ہو تی ہیں ہر کوئی اپنے دل کے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور تقریر لمبی بھی ہو جاتی ہے،کئی لوگوں نے خطاب کرنے ہو تے ہیں اور ٹائم تو لگتا ہے بہر حال افسوس ناک صورتحال تھی۔جمہوریت میں جلسوں پر پا بندی نہیں لگائی جاسکتی اور خدارا ایسے جمہوری کام کرنے سے گریز کریں اور اس ملک پر رحم کریں،آزادانہ الیکشن کروائیں جائیں اور ون مین ون ووٹ کے اصول کے تحت الیکشن کروائیں تاکہ حقیقی نمائندگی سامنے آئے۔توقع تھی کہ موجودہ الیکشن کمیشن ماضی کے الیکشن کمیشن سے مختلف ہو گا اور لیکن وہ تو ہر طریقے سے ناکام رہا ہے،جس انداز سے تمام معاملات چلائے گئے کیئر ٹیکر حکومتیں جس انداز میں چلیں وہ کو ئی مناسب نہیں تھا اور اب اس موجودہ الیکشن کمیشن پر سے تو سب کا اعتماد ختم ہو گیا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ الیکشن کمیشن استعفیٰ دے اور گھر کو جائیں،اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔