بنگلا دیش میں بانی پاکستان کی برسی اور افغانستان سے مذاکرات کا مسئلہ !!!!!!

بنگلا دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد حالات بہت مختلف ہیں۔ ایک عرصے تک وہاں بھارتی ایجنڈے کو فروغ دیا جاتا رہا، پاکستان سے محبت کرنے والوں، آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں اور شیخ مجیب الرحمٰن کے نظریے سے اختلاف رکھنے والوں کو بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے، بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔ بالخصوص جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے وطن سے محبت کی بہت قربانیاں دی ہیں۔ جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہاں لوگوں نے اس اقتدار کے خاتمے کو سیاہ رات کے خاتمے سے جوڑا ہے، مظاہرین نے شیخ مجیب الرحمٰن، ان کی بیٹی اور ان کی جماعت سے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اب حسینہ واجد اپنی اصل جگہ موجود ہیں۔ جہاں سے وہ ہمیشہ ہدایات لیتی رہیں یا جہاں بیٹھے پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کیں، شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھی بھارتی سازشوں کا حصہ بنے اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ دنیا نے پہلے شیخ مجیب الرحمٰن کا انجام دیکھا اور آج دنیا نے شیخ حسینہ واجد کے فرار کا منظر بھی دیکھا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے اس کا انجام ایسا ہی ہو گا۔ اس ملک کی بنیادوں میں شہیدوں کا خون ہے، عزتیں، عصمتیں اور معصوم بچوں کے لاشے ہیں، بزرگ اپنے خوابوں کے ساتھ دفن ہوئے ہیں۔ جو بھی اس ملک کو نقصان پہنچانے کے عمل کا حصہ بنا ہے وہ آخر کار اپنے انجام کو پہنچا ہے۔ اب بنگلا دیش میں حکومت تبدیل ہوئی ہے تو وہاں پہلی باربانی پاکستان محمد علی جناح کی 76 ویں برسی پر ڈھاکا کے نیشنل پریس کلب میں تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر نے بھی شرکت کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ قائد اعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ بنتا اور نہ ہی بنگلادیش وجود میں آتا، بنگلا دیش کو پاکستان اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد سمیت زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور قائد اعظم پر لکھی گئی ایک نظم بھی پڑھی گئی۔ بنگلا دیش میں زیر تعلیم دو پاکستان طلبا نے گیت گا کر قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ بنگلا دیش میں یہ تبدیلی خوش آئند ہے۔ وہاں بانی پاکستان کو یاد کیا جا رہا ہے، بھارت کو اس کی زبان میں جواب بھی دیا جا رہا ہے، بنگلا دیش کی ٹیم حال ہی میں پاکستان میں ٹیسٹ سیریز بھی جیت کر گئی ہے دونوں ملکوں کے پاس تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا یہ اچھا وقت ہے۔ بنگلا دیش میں سیلاب سے ہونے والے نقصان پر پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے مدد کی پیشکش بھی اچھا پیغام تھا۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ آج ہم نے بانی پاکستان کے پیغام کو بھلا تو نہیں دیا، کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں، کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا، کیا یہ وہی پاکستان ہے جو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے ہمارے حوالے کیا تھا۔ ہمیں یہ سوچنا ہے یقینا یہ وہ پاکستان نہیں ہے۔ کیا ہم سے شاعر مشرق اور بابائے قوم کا پاکستان بنانے کے لیے کچھ کر بھی رہے ہیں یا نہیں؟؟ ہم قائد اعظم کا یوم پیدائش مناتے ہیں اور خبروں کی حد تک یوم وفات پر بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ یہی رویہ ہمارا شاعر مشرق کے معاملے میں ہے۔ ہم بابائے قوم کے افکار اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری کو فراموش کر چکے ہیں۔ 
اگر ملک میں سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو اس وقت علی امین گنڈا پور کے ایک بیان کی وجہ سے خاصی بے چینی ہے۔ چند روز گذرے انہوں نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جود افغان حکومت سے بات چیت کریں گے۔ وہ اس معاملے میں وفاق کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس بیان کے بعد قومی اسمبلی میں بھی بحث ہوئی تھی۔ حکومتی سطح پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی اس سوچ پر سوالات ہوئے تھے لیکن اب بانی پی ٹی آئی نے بھی علی امین گنڈا پور کی حمایت کر دی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کہتے ہیں انہیں علی امین سے کہنا چاہیے کہ خدا کے واسطے جا کر افغانستان سے بات کرو، بات چیت کے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ علی امین گنڈا پور کے مؤقف کی حمایت کرتا ہوں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے دفتر خارجہ کو چھوڑو خیبر پختونخوا دہشتگردی سے سب سے ذیادہ متاثر ہے، بلاول جب وزیر خارجہ تھا تو وہ افغانستان تک نہیں گیا، خیبر پختونخوا میں پولیس کے کتنے لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ 
پاکستان تحریک انصاف جو سیاست کر رہی ہے یا جس انداز میں نظام کو تباہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے ایسا صرف پی ٹی آئی ہی کر سکتی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ جس سفر پر ہیں وہ لوگوں کو بغاوت پر اکسانے والا ہے، ایک ملک کے وزیر خارجہ کے ہوتے ہوئے وفاق کی پالیسی کو صوبے کا وزیر اعلیٰ کیسے اپنے انداز میں چلانے کی بات کر سکتا ہے، یعنی علی امین گنڈا پور اس راستے پر ہیں جہاں سے کوئی مثبت کام نظر نہیں آتا ہے۔ پولیس کی بات کرتے ہوئے نہتے شہریوں اور فوجی جوانوں کو کیسے بھولا جا سکتا ہے، کیا بانی پی ٹی آئی اور ان کے وزیر اعلیٰ یہ نہیں جانتے کہ تحریک طالبان پاکستان کے پیچھے کون ہے۔ کیا پاکستان نے افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی کے معاملہ میں ناقابل تردید ثبوت و شواہد پیش نہیں کیے، کیا پاکستان مسلسل افغان حکومت کو یاد نہیں دلاتا رہا کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے بیانات صرف اور صرف محاذ آرائی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سنجیدہ قیادت کو چاہیے کہ آگے آئے سیاست صرف ہر وقت بیانات جاری کرنے کا نام نہیں ہے۔ پاکستان میں دفاعی اداروں کے افسران و جوان دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں، اپنی قیمتی جانوں کو قربان کر رہے ہیں۔ کیا ریاست پر حملہ آور ہونے والوں اور جانی و مالی نقصان پہنچانے، پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والوں سے ایسے بات چیت کی جاتی ہے۔ یعنی علی امین گنڈا پور دہشت گردوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک طویل موضوع ہے اس معاملے میں بانی پی ٹی آئی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی سوچ ایسی نہیں جس کی حمایت ہو سکے۔ کاش یہ لوگ کچھ عقل و شعور سے کام لیں۔
آخر میں سعد اللہ شاہ کا کلام
ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا 
سر بسر خواب کا تعبیر نما ہو جانا 
چند اشکوں نے چھپایا  ہے مکمل منظر 
ہم پہ کھلتا ہی گیا تیرا  جدا ہونا جانا
اپنی خواہش تری یادوں میں بھٹکتی ہے کہیں 
جیسے گلگشت  میں تتلی کا  فنا  ہو  جانا 
شاخ در شاخ سبک سار ہواؤں کا گزر 
اک قفس سے کسی پنچھی کا رہا ہو جانا 
اشک گرتے ہی کھلے پھول مرے دامن میں 
رت بدلتے  ہی پرندوں کا صدا  ہو جانا 
ایک سائے کا ہے احساس مرے سر پہ سدا 
کون سوچے گا کبھی خود سے خدا ہو جانا 
آشنا ہم بھی محبت سے نہیں ہیں ہرگز 
ہائے اس ربط کا بھی نذر انا ہو جان

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...