ضمیر کی اجازت اور صدائے شکم

قومی اسمبلی کے حلقے 171 (رحیم یار خاں) میں ضمنی انتخابات کا نتیجہ بتاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی ایک اور نشست کم ہو گئی، حکمران اتحاد کی ایک سیٹ اور بڑھ گئی۔ 8 فروری کے الیکشن میں یہ سیٹ پی ٹی آئی کے ممتاز مصطفیٰ نے ایک لاکھ چار پانچ ہزار ووٹوں سے جیتی تھی، پی ٹی آئی نے ان کی وفات پر ٹکٹ انہی کے صاحبزادے حسان مصطفیٰ کو دیا۔ عمومی روایت ہمارے ملک کی یہ ہے کہ کوئی امیدوار وفات پا جائے تو نیا امیدوار اگر اسی مرحوم کا بھائی یا بیٹا ہو تو اسے ہمدردی کا اضافی ووٹ بھی ملتا ہے اور یوں وہ پارٹی ضمنی الیکشن، اصل الیکشن سے بھی زیادہ ووٹوں کے ساتھ جیت جاتی ہے لیکن رحیم یار خان میں تو گنگا نے الٹی چال چلی۔ پی ٹی آئی 8 فروری کو ایک لاکھ چار ہزار ووٹوں سے جیتی تھی، ضمنی الیکشن میں حسان مصطفی کو 58 ہزار وٹ ملے۔ یعنی سات ماہ میں پی ٹی آئی کے 46 ہزار ووٹ جھڑ گئے۔ یہ خبر ہمارے لئے، ’’شاکنگ نیوز‘‘ تھی کیونکہ ہمارا خیال تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کو 95 فیصد سے زیادہ (شاید 98 فیصد) عوام کی حمایت حاصل ہے، باقی سب جماعتوں کے ووٹ مل ملا کر بھی دو تین فیصد ہیں۔ اور ہمارے اس یقین کی بنیاد ٹی وی پر بیٹھے ہوئے درجنوں در درجنوں ، انبوہ در انبوہ اینکر پرسنز کے ہر روز کے تین تین شوز میں کئے گئے ’’غیر جانبدارانہ‘‘ تبصرے اور جائزے ہیں۔ 
خیر، جب یقین آ گیا کہ ضمنی الیکشن کے نتیجے کی خبر صحیح ہے اور پی ٹی آئی سچ مچ ہار گئی ہے تو خان صاحب کے ایک عاشق صادق سے رابطہ کیا جن سے دعا سلام کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اگرچہ گاہے گاہے۔ ان سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا تو انہوں نے ایک آہ سرد بھری اور روتے ہوئے یہ قوالی گانے لگے (اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ پہلے قوالی گائی اور پھر روئے یا پہلے روئے پھر قوالی گائی: 
کسے دا ’’فیض‘‘ نہ بچھڑے۔
چنانچہ مزید نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی پْررونق کامیابی کا عنوان دراصل یہ شعر ہے
تھی وہ اک شخص کے تصور سے 
اب وہ رعنائی خیال کہاں۔
شعر میں ’’تصور‘‘ کی جگہ وجود پڑھیئے اور رعنائی خیال کو ووٹوں کا وفور مان لیجئے، مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔ 
_____
پختونخواہ اسمبلی کے ارکان، وہاں کی حکومت اور حکومتی حلقے اور صوبے بھر کی پی ٹی آئی کے رہنما یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاک فوج صوبے سے نکل جائے۔ سوشل میڈیا پر تو اس مطالبے کے متن والے بعض دھمکی آمیز پیغامات بھی چل رہے ہیں اور کچھ گالم گلوچ کا تڑکا بھی ہے۔ 
اس مطالبے سے دو دن پہلے یہ خبر وہاں کے صحافیوں نے دی تھی کہ صوبے کے دوتہائی رقبے پر د ہشت گردوں اور بھتہ خوروں کا قبضہ ہے۔ جا بجا ان کے اڈے، کیمپ، ناکے، جیل خانے اور عدالتیں ہیں اور ان سب کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ آدھے سے زیادہ صوبے پر ریاستی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ اور پاک فوج صوبے سے واپس آ گئی تو دوتہائی رقبہ تین تہائی ہو جائے گا یعنی کہ ٹی ٹی پی کا راج سو فیصد صوبے پر ہو جائے گا۔ ان دونوں خبروں کو ایک تیسری خبر سے ملا کر پڑھیئے، تصویر زیادہ واضح ہو جائے گی اور یہ تیسری خبر کچھ یوں ہے کہ جس روز سنگ جانی کی منڈی مویشیاں میں حقیقی آزادی کا جلسہ ہوا اسی روز افغان طالبان نے پاکستان پر ایک منظم حملے کی شروعات کیں اور یہ جنگ ٹینکوں سے لڑی گئی۔ یعنی طالبان لشکر ٹینک لے کر آیا تھا۔ حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ 2 ٹینک تباہ اور 16 طالبان بھی اکھنڈ بھارت واصل ہوئے۔ لیکن حملہ ابھی جاری ہے اور افغان طالبان ، سرحد پار ایک قسم کی لام بندی کر رہے ہیں یعنی بڑی جنگ کے ارادے ہیں۔ 
تصویر واضح ہوئی؟۔ اب آپ کو وہ چوتھی خبر بھی سمجھ میں آ گئی ہو گی جو تین سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ یعنی وہ خبر جس میں بتایا گیا تھا کہ فیض عمران جوڑی نے افغانستان سے ٹی ٹی پی کے چالیس ہزار دہشت گرد ’’امپورٹ‘‘ کئے ہیں (تاکہ بوقت ضرورت حقیقی آزادی کیلئے بروئے کار لائے جا سکیں اور اب وہ بروئے کار آ رہے ہیں)۔ اور ساتھ ہی پانچویں خبر بھی یاد کر لیجئے جس میں یہ تھا کہ مشہور دندان ساز اور ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر پر ’’فاتحانہ قبضہ‘‘ کرنے والے عارف علوی نے بطور صدر ٹی ٹی پی کے سینکڑوں ہارڈ کور دہشت گردوں کو عام معافی دینے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ 
کہانی کا عنوان ایک سو ایک فیصد کرسٹل کلیئر ہے لیکن خوف فساد خلق اور خیال خاطر احباب کے پیش نظر یہ عنوان بتانے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے، قارئین خود ہی عنوان دے ڈالیں۔ 
_____
پختونخواہ کی حکومت نے ایک جج ہمایوں دلاور اور ان کے اہلخانہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے کیونکہ حضرت اڈیالوی ان سے بوجوہ ناراض تھے۔ بعدازاں پشاور ہائیکورٹ سے یہ وارنٹ معطل کر دئیے گئے۔ 
حضرت اڈیالوی نے اڈیالہ کے ’’دارالطعام ‘‘ میں ایک عدد دیسی بکرا اور دو عدد دیسی مرغے تناول فرمانے کے بعد ایک عدد بیان جاری فرمایا جس میں انہوں نے جج ہمایوں دلاور کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا کامیاب دفاع کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے جج دلاور کو سرکاری زمین الاٹ کی تھی تاکہ وہ میرے خلاف توشہ خانہ کا فیصلہ سنائیں۔ اس لئے وارنٹ جاری کئے۔ 
یہ زمین جس کی الاٹمنٹ کا ذکر حضرت اڈیالوی نے فرمایا، 1976ء میں اس وقت کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ہمایوں دلاور کو نہیں، ان کے والد کو الاٹ کی تھی۔ اور اگر ’’حکمران‘‘ سے مراد حضرت اڈیالوی کی حافظ عاصم منیر (آرمی چیف) سے ہے کیونکہ وہ اپنے ہر بیان میں اصل حکمران انہی کو قرار دیتے ہیں تو پھر ملاحظہ فرمائیے کہ حافظ صاحب کی عمر 1976ء میں سات یا آٹھ سال کی تھی، یعنی تب وہ پرائمری سکول میں پڑھتے ہوں گے۔ اور جج ہمایوں دلاور کی عمر تب کتنی تھی؟۔منفی دو سال۔ یعنی وہ زمین کی الاٹ منٹ کے دو سال بعد 1978ء میں پیدا ہوئے تھے۔ 
تو معلوم ہوا، ہر دو حضرات بالترتیب 7 اور 8 سال کی عمر ہی میں ولی اور اصحاب کشف تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ 48 سال بعد ہم نے ایک جج ہمایوں دلاور سے، جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا، حضرت اڈیالوی کو سزا دلوانی ہے چنانچہ انہیں ابھی سے سرکاری زمین الاٹ کروا دی جائے۔ انہوں نے اپنے موکلات کی مدد سے مرحوم بھٹو کو اپنے سحر میں لیا اور زمین الاٹ کروا دی۔ دو سال بعد ہمایوں دلاور پیدا ہوئے اور جب وہ پانچ سال کے ہوئے تو ان کے والد نے بتایا کہ بیٹا، یہ زمین ہمیں اس مقصد کیلئے ملی ہے چنانچہ وعدہ کرو کہ جب آج سے چالیس سال بعد توشہ خانہ کا کیس تمہارے سامنے آئے تو تم نے یہ فیصلہ دینا ہے، سعادت مند بیٹے نے وعدہ یاد رکھا اور وقت آنے پر وفا کر دکھایا۔ پیدائشی ولی ایسے ہوتے ہیں۔ 
_____
سپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن لیڈروں کو چائے پر بلایا۔ وہ گئے لیکن چائے پینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہماری غیرت اجازت نہیں دیتی۔ بعدازاں سپیکر نے انہیں بتایا کہ عشائیہ بھی ہے جس میں بھنا گوشت، دیسی مرغی، بریانی، فیرنی سمیت درجن بھر ڈشز ہیں۔ اس پر ’’غیرت‘‘ کے منہ میں پانی آ گیا اور اپوزیشن کھانے کی تمام دیگیں چٹ کر گئی۔ ضمیر کا سفر بھی کہہ سکتے ہیں اور صدائے شکم بھی۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...