لاہور (نوائے وقت رپورٹ) عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ 2023ء تک میں ن لیگ کی سیاست اور قیادت کو دوسروں سے بہترسمجھتا تھا۔مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کے دوارن گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں 88ء میں سیاست میں آیا ، میرے والد نے سیاست میں نام بنایا۔ میں بیرون ملک سے آیا تو ٹکٹ نہیں ملا، اس لیے آزاد الیکشن لڑا۔ 1988ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آ رہی تھی، میری بے نظیر بھٹو سے ملاقات کروائی گئی۔ اس سے قبل میں نواز شریف سے مل چکا تھا اور میں انہیں کہہ چکا تھا کہ میں آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے آپ کیخلاف الیکشن لڑا ہے لیکن میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔انہوں نے کہا کہ نصیر اللہ بابر کے ساتھ بینظیر سے ملا تو انہیں کہا کہ 109 ووٹ چاہییں۔ اگر آپ کے پاس 108 ووٹ ہوئے تو میں 109 واں ووٹ بنوں گا۔ میں نے اس دور میں کھڑے ہو کر بینظیر کیخلاف ووٹ دیا حالانکہ اس دور میں آئی جے آئی کے 22 اراکین نے بینظیر کو ووٹ دیا تھا۔ مجھے چوائس کرنی تھی کہ کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہونا ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی 90ء کی پالیسیاں بہت اچھی تھیں۔ میں 2023ء تک مسلم لیگ کی سیاست اور قیادت کو دوسروں سے بہترسمجھتا تھا۔ سیاستدان شیشے کے گھر میں رہتا ہے۔ مجھ پر تنقید کرنے کا حق صرف اور صرف نواز شریف کو ہے۔ نواز شریف سے ذاتی تعلق ہے اور میں مشکل ترین وقت میں ان کے ساتھ رہا۔ میں نے کبھی ان سے وزارت نہیں مانگیسابق وزیراعظم نے گفتگو میں مزید کہا کہ 35 سالہ سیاست میں 20 سال اپوزیشن میں رہے۔ 5 سال اقتدار اور اس سے پہلے اپنی جماعت کی اندرونی اپوزیشن میں رہا۔ جماعتوں کے اندر بھی اپنی رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔ جماعت کے فورم پر لیڈر سے ڈس ایگری کرنا سیاست میں سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ میں نے کبھی خوشامد نہیں کی جس کی گواہی سب ساتھی دے سکتے ہیں۔ مجھے وزارت عظمیٰ کی آفر ہوئی تو اس اجلاس سے قبل مجھے بالکل نہیں پتا تھا۔سربراہ عوام پاکستان پارٹی نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں مجھے ہروایا گیا جس کی میں نے پروا نہیں کی۔ مجھے کہا گیا کہ اس نمبر پر بات کر لیں تو آپ کو جتوا دیا جائے گا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ ای ڈی ایس پی نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس نے 36 ہزار ووٹ تبدیل کر کے ہروایا۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے کہنے پر میں لاہور سے الیکشن لڑا۔ میں نے 2018ء کے بعد 4 سالوں میں کبھی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہیں کیا۔ جیل میں کوئی قیامت نہیں آ جاتی۔ میرے لیے اڈیالہ جیل میں علیحدہ سیل تیار کیا گیا۔ سزائے موت اور توہین رسالت کے مجرموں کے درمیان مجھے قید رکھا گیا ، لیکن وہ وقت بھی گزر گیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ووٹ کو عزت دو کی سیاست دی گئی جسے عوام نے قبول کیا۔ مسلم لیگ ن اس ووٹ کو عزت دو سے ہٹ گئی۔ پھر میں اس جماعت کے عہدے پر نہیں رہ سکتا تھا۔ ہم جب راستے سے ہٹے تو میں نے کوشش کی کہ جماعت کی قیادت کو سمجھاؤں۔ میں نے 2023 میں ہی نواز شریف کو کہہ دیا تھا کہ میں نے اب الیکشن نہیں لڑنا۔ مجھے نواز شریف نے کبھی کرپشن یا کوئی غیر قانونی کام کرنے کے لیے نہیں کہا۔ میں نے کرپشن کے الزام میں 17 سال کیسز بھگتے ہیں۔ میرا مسلم لیگ ن سے کوئی شکوہ یا مخالفت نہیں ہے، بات صرف ووٹ کو عزت دو سے پیچھے ہٹنے کی ہے۔