ڈاکٹر شکیل پتافی کی ’’عکسِ غالب‘‘

 فکرِ غالبؔ کا یہ اعجازہے کہ تقریباً دو صدیاں ہونے کو ہیں مگر صاحبانِ علم و دانش ہنوز فکرِ غالبؔ کی عقدہ کشائی میں مصروف ہیں۔ غالبؔ کی شخصیت اور فکروفن پر بہت زیادہ لکھاگیا، اتنا کہ اب ’’غالبیات‘‘ نے معروف تنقیدی اصطلاح کی صورت اختیار کر لی ہے لیکن محسوس یُوں ہوتا ہے کہ  :

؎   حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
 غالبؔ پر نئی کتاب یا مقالہ پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید اس کے بعد مزید لکھنے کی گنجائش نہ ہو گی لیکن اہلِ نظر کوئی نہ کوئی نکتہ پیدا کر ہی لیتے ہیں۔ یوں غالبؔ پر خامہ فرسائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ فکرونظر اور افکار و تصورات کے لحاظ سے غالبؔ شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرچکے ہیں تو اِسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔
 ڈاکٹر شکیل پتافی کی کتاب ’’عکسِ غالب‘‘ بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر شکیل پتافی 9دسمبر 1961ء کو کوٹ مٹھن، تحصیل و ضلع راجن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اُدھر سے ہی حاصل کی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم۔ فل اور 2007ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ’’پاکستان میں غالب شناس … تحقیق و تنقید‘‘ کے زیرِ عنوان ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر آف اُردو (گریڈ 20)/پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج راجن پوراور بطور ڈپٹی ڈائریکٹر کالجزراجن پور خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
 حکومتِ پاکستان نے 2014ء میں اِن کی علمی و ادبی خدمات کے پیشِ نظر انہیں ’’بابائے اُردو مولوی عبدالحق‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا۔ ایم۔ اے، ایم۔ فل اور پی ایچ۔ ڈی کے دو درجن سے زائد مقالہ جات ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل پتافی ممتاز شاعر ہونے کے علاوہ مستند ادیب، نقاد، محقق، مؤرخ اور مفسرِ قرآن کی حیثیت سے بھی جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل پتافی کی 14کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ (1)   پچھلے پہر کی دستک (اُردو غزلیں) 1984ء  (2)  اکھ بے خواب عذاب (سرائیکی شاعری) 1997ء  (3)  شکست شام سے پہلے (اُردو غزلیں) 2007ء  (4)  نئے امکانات (تحقیق و تنقید) 2008ء  (5)  جنوبی پنجاب میں اُردو شاعری (تحقیق) 2008ء  (6)  سرائیکی ادبی مقالات (تحقیق و تنقید) 2008ء  (7)  کلام۔ بے کس (تدوین) 2009ء  (8)  پرندے خود کلامی کر رہے ہیں (اُردو نظمیں) 2010ء  (9)  پاکستان میں غالب شناسی (تحقیق) 2014ء (اس کتاب پراکادمی ادبیات پاکستان نے ’’بابائے اُردو مولوی عبدالحق ایوارڈ‘‘ سے نوازنے کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو ایک لاکھ روپیہ نقد انعام بھی دیا)  (10)  تہذیبی خدوخال (تحقیق)2015 ء  (11)  اُردو ادب اورمغربی رجحانات (تحقیق و تنقید) 2015ء  (12)  بنج دا فیض (تدوین)2018ء  (13)  ڈسٹرکٹ گزیٹیئر راجن پور 2021ء۔ ان کے علاوہ ’’عکسِ غالب‘‘ حال ہی میں تازہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔ ’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘ کے بعد ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’عکسِ غالب‘‘ بھی غالبؔ سے محبت کا اظہار ہے۔ ’’عکسِ غالب‘‘ کم و بیش تحقیقی نوعیت کے پندرہ مضامین پرمشتمل ہے۔ آغازمیں ’’گفتار میں آئوے‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کی اپنی تحریر ہے۔ کتاب میں شامل موضوعات کے بارے میں ڈاکٹر شکیل پتافی لکھتے ہیں کہ  :
 ’’مرزا غالبؔ کی زندگی میں جہاں اُن کی تعریف و توصیف میں بہت کچھ لکھا گیا وہاں اُن کے خلاف لکھے جانے کی روایت بھی قائم ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں ’’غالب شکنی‘‘ ایک الگ موضوع کی حیثیت اختیار کر گئی چنانچہ اس کتاب میں کچھ مضامین غالب کے حق و تائید میں اورکچھ تاریخی حقائق کومدِنظر رکھتے ہوئے اس کے برعکس ہیں۔ اس طریقۂ کار سے غالبؔ کی شخصیت کے دونوں پہلوئوں کا مکمل احاطہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک تو اس کتاب کے مطالعے سے غالب شناسی کی نئی راہیں دریافت ہوں گی اور دوسرا اس سے غالب کو سمجھنا کافی آسان ہو جائے گا۔‘‘
 بلاشبہ اختلاف رائے کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس سے زندگی اور ادب دونوں آگے بڑھتے ہیں۔ غالبؔ کو خُود بھی اس بات کا احساس تھا۔ اِسی لیے غالبؔ نے کہا تھا  :
؎  غالبؔ بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے
   ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جِسے
 ’’عکسِ غالب‘‘ کے 15 موضوعات پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کل سولہ موضوعات ہیں :(1)   پاکستان میں غالبیات کے 75سال  (2)  غالب … اہلِ قلم کا تخلیقی محرک  (3)  کلامِ غالب کی تفہیم کا مسئلہ  (4)  اُردو زبان و ادب اور مرزا غالب (5)   غالب اور قضیۂ برہان (6)   غالب کے فارسی کلام کے منظوم اُردو تراجم (7)   غالب کا سائنسی شعور … ایک جائزہ (8)   مالک رام کا غالبیاتی سرمایہ (9)   غالب کے مہمل اور مسروقہ اشعار (10)   افکارِ غالب کا مستقبل (11)   کلامِ غالب… ہم طرح، تضمینیں اور خمسے (12)   غالب شکنی میں تذکروں و معاصر اخبارات کا کردار (13)   غالب پرپہلی سنجیدہ کتاب۔ یادگارِ غالب (14)   تین غالب شِکن اور (15)  دس غالب شناس۔
 ’’عکسِ غالب‘‘ پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے ممتاز نقاد و ادیب ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کی تحریر شامل ہے۔ ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری صاحب لکھتے ہیں کہ :’’بحیثیت مجموعی ’’عکسِ غالب‘‘ غالبیات میں ایک اہم اضافہ ہونے کے جملہ تقاضے پورے کرتی ہے۔ میرے نزدیک یہ تصنیف غالب کے اُن طرف داروں کے لیے کسی ارمغان سے کم نہیں جن کی سخن فہمی طرف داری پرہمیشہ رہتی ہے۔ میں اس کتاب کا کشادہ دل اور کھلے بازوئوں سے خیر مقدم کرتا ہوں۔‘‘ ’’عکسِ غالب‘‘ کا انتساب بھی ڈاکٹر شکیل پتافی نے اپنے اُستاد ذی فخر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری کے نام کیا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے اُستاد ڈاکٹرمحمد فخرالحق نوری کی رہنمائی کے بغیر ’’غالب شناسی‘‘ کا سفر آسان نہ ہوتا۔
 ’’عہدِ حاضر کا غالب شناس‘‘ کے عنوان سے ممتاز ادیبہ ڈاکٹر رافعہ ملک کی تحریر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر رافعہ ملک نے بجا طور پر لکھا ہے کہ : ’’ڈاکٹر شکیل پتافی صاحب کی زبان شفاف اور اُسلوب نہایت پُراثر ہے۔ وہ زیرِ بحث موضوع کو حوالوں کی مدد سے مدلل بناتے ہوئے منطقی استدلال سے کام لیتے ہیں۔ غالبؔ کے حوالے سے یہ اُن کی دوسری کتاب ہے جو میرے نزدیک ذخیرئہ غالبیات میں اہم اضافہ ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اس کتاب کی تفہیم سے جہانِ مرزا غالب کو سمجھنے میں کوئی دِقت نہیں رہے گی۔‘‘
 مُجھے توقع ہے کہ غالبیات کے موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور قابلِ مطالعہ و استفادہ تصنیف ہے جو طلباء و اساتذہ کے لیے یکساں مفید ہے۔ یہ کتاب غالب پسندوں میں اپنی جگہ ضرور بنائے گی اور یادگار رہے گی۔ غالب سے سنجیدہ دلچسپی رکھنے والے قارئین اُردو ادب کے اساتذہ اور طلبہ اس کتاب کو نہ صرف اپنے لیے مفید پائیں گے بلکہ یہ کتاب جامعات کے اساتذہ اور طلباء کے ضروری حوالہ کی کتاب ثابت ہو گی۔ آخرمیں مجھے اُمید ہے کہ جناب ڈاکٹر شکیل پتافی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اور غالبیات کے حوالے سے علم و ادب کی دُنیا میں مزید اضافہ کرتے رہیں گے۔ بقول غالبؔ  :
؎  آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جِسے
   ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جِسے؟

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن