سفرنامہ ایک لحاظ سے مسافر کی روزمرہ ڈائری ہوتی ہے۔ وہ دوران سفر جو کچھ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیتا ہے۔ ہمارے ہاں سفرنامہ لکھنے کی روائت عام ہے لیکن بہت کم سفرنامے ایسے ہیں جن میں حقیقت کا رنگ غالب ہو اور حاشیہ آرائی نہ کی گئی ہو۔ بعض قلم کار پیش آنے والے واقعات اور مناظر میں اپنی پسند کی رنگ آمیزی کر ڈالتے ہیں۔ اس طرح افسانوی انداز کی حاشیہ آرائی سفرناموں کو قاری کے لئے دلچسپ تو بنا دیتی ہے لیکن اسے تصویر کے اصل خدوخال سے آگاہ نہیں کر پاتی۔ خواجہ محمد شریف صاحب (جو آج ماشاء اللہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں) نے برطانیہ اور فرانس کے سفر کی روئیداد ایک عام مسافر کی طرح بیان کی ہے اور یورپ کی بے حجاب تہذیب کے تذکرے سے گریز کیا ہے۔ رنگین بیانی اور زبان کی آرائش یا مبالغے کی رنگ آمیزی اس سفرنامے میں نہیں ہے۔ یہ ایک عام آدمی کے دیار غیر میں گزرے شب و روز کی کہانی ہے جو دوستوں کی مروّت کے ذکر چھوٹے چھوٹے تجربات اور معلومات کا مجموعہ ہے۔ خواجہ محمد شریف کے ساتھ انکا بیٹا بلال بھی ہمسفر ہے۔ انہوں نے عزیزواقارب کے ہاں قیام کیا اور روزمرہ کے معمولات کی تفصیل کاغذ پر منتقل کر دی۔ یہ ایک مشرقی تہذیب کے دلدادہ شریف النفس انسان کا سفرنامہ ہے جس میں برطانیہ اور فرانس کی سیر کی کہانی یورپ کی رعنائیوں کے ذکر سے خالی ہے اس لئے کہ سفرنامہ نگار کو خود ان خرافات سے دلچسپی نہیں البتہ عام قاری کی دلچسپی کا مواد اس کتاب میں موجود ہے۔ 136 صفحات کی یہ کتاب 200/- روپے الفیصل ناشران غزنی سٹریٹ اردو بازار سے دستیاب ہے۔ (تبصرہ جاوید حسین علوی)