حکومت امریکہ سے التجائیں ہی کرتی رہی تو ڈرون حملوں کا دائرہ پنجاب تک پھیل سکتا ہے

لاہور (احمد جمال نظامی سے) 9/11 حملوں کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں پہلی مرتبہ اس حد تک کشیدگی پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں، دانشوروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں اور پاک فوج کے جرنیلوں میں یہ احساس ابھر رہا ہے کہ پاکستان نے پاک امریکہ د وستی کو آگے بڑھانے اور ہر دور میں امریکہ کو اپنے مسائل کے لئے نجات دہندہ کے طور پر دیکھنے کی 63سالہ پالیسی میں آج تک صرف وقت ہی ضائع کیا ہے۔ پاکستان کے حکام، انٹیلی جنس افسران اور پاک فوج کے جرنیلوں کی طرف سے امریکہ کو بار بار بتایا جا چکا ہے کہ نیٹو افواج کی طرف سے پاکستان پر کئے جانے والے ڈرون حملے دہشت گردی کی جنگ کے خاتمہ کی بجائے اس کے دائرہ کو وسیع تر کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کے حکام نے ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں دن دیہاڑے سی آئی اے کے ایک ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانی نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد ملک کے سترہ کروڑ عوام کی امنگوں کے برعکس اس امریکی ایجنٹ کو ایک ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے رہا کروا کر امریکہ کے سپرد کر دیا تو اس سے پاکستان کے حکام کو یقیناً یہ خوش فہمی لاحق ہو گئی تھی کہ اس سے پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی یکسر ختم ہو جائے گی مگر ریمنڈ کی رہائی کے اگلے روز نیٹو افواج نے پاکستان پر مشرف دور سے شروع کئے جانیوالے ڈرون حملوں کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کر کے شمالی وزیرستان کے سینکڑوں بے گناہ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ اس ڈرون حملے پر صدرمملکت آصف علی زرداری سے لے کر چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی تک نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ پاکستان کے اس احتجاج کو ہر بین الاقوامی فورم پر ریکارڈ کرایا گیا۔ اس ڈرون حملے کے بعد بظاہر لگتا تھا کہ امریکہ نے پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے امریکہ مخالف جذبات کا ادراک کر لیا ہے اور شاید مستقبل میں ڈرون حملے نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے نئے پارلیمانی سال کا آغاز کرنے کے لئے مشترکہ پارلیمانی اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ سے کہا کہ وہ پاکستان پر ڈرون حملے کرنے کی بجائے پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی فراہم کر دے تاکہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیاں، دہشت گردی کے خلاف جب کسی ڈرون حملے کی ضرورت سمجھیں اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کر لیں۔ ڈرون حملوں کے ر ک جانے سے بظاہر پاکستان کے عوام کے دلوں میں امریکہ کے لئے نفرت کے جذبات ختم ہو رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ گیاتھا اور پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے دہشت گردی کی جنگ میں دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی فضا کو بہتر بنانے کے لئے امریکہ کا دورہ کیا اور وہاں امریکہ کے مقتدر حلقوں سے ملاقاتوں کے دوران ڈرون حملوں کا سلسلہ یکسر روک دینے کا مطالبہ کیا لیکن جس طرح ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا تحفہ ایک بڑے اور ہولناک ڈرون حملے کی صورت میں دیا گیا تھا بالکل اسی طرح جنرل پاشا کی امریکہ سے واپسی پر 13۔اپریل کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے بڑے ڈرون حملے کے 27 دنوں کے بعد ایک اور ڈرون حملہ کے ذریعے 6 پاکستانیوں کو شہید کر دیا گیا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بدھ کے روز امریکی جاسوس طیاروں نے جنوبی وزیرستان کے متعدد علاقوں میں پروازیں کیں۔ تحصیل برمل کے علاقے انگور اڈہ پر میزائل حملے میں ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے حملے میں ایک موٹرسائیکل اور تیسرے حملے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ جاسوس طیاروں سے اس روز کل سات میزائل داغے گئے جن کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی گونج قومی اسمبلی کے اجلاس میں سنائی دی گئی اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو یہ کہنا پڑا کہ پاکستان پر ڈرون حملے دہشت گردی کی جنگ کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ حملے غلط پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے مشرف دور کا تحفہ ہیں۔ جب وزیراعظم ڈرون حملوں کو مشرف دور کا تحفہ قرار دے رہے تھے ملک کے باشعور عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے آنے سے ملک میں کیا تبدیلی آئی ہے۔ بجلی کا بحران تین سال میں مزید شدت اختیار کر گیا اور حکمران یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بجلی کا بحران سابقہ دور کا ورثہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں مشرف دور کے مقابلے میں دوگنا اور مہنگائی کا گراف زرداری گیلانی دور میں مشرف دور کے مقابلے کئی گنا اوپر اٹھ گیا ہے۔ اگر موجودہ حکمران مشرف دور میں شروع ہونے والی پالیسیوں کو تبدیل کر لیتے تو امریکہ کے ڈرون حملے تین برس پہلے ہی رک چکے ہوتے۔ جس فدویانہ انداز میں امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کے لئے کہا جاتا ہے اور جس طرح امریکہ کو پاکستان میں سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ارکان میں اضافہ کرنے کی کھلی اجازت دی گئی ہے اس سے لگتا ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بلکہ کوئی ایسا ملک ہے جو امریکہ یا کسی بھی ملک کی جارحیت کیخلاف زیادہ سے زیادہ احتجاج ہی ریکارڈ کروا سکتا ہے۔ بدھ کو جنوبی وزیرستان میں ہونیوالے ڈرون حملوں پر بھی حکومت کی طرف سے احتجاج ریکارڈ کروا دیا گیا ہے اور وزیراعظم نے اپنی بے بسی کا اظہار یہ کہہ کردیا ہے کہ سفارتی سطح پر دنیا کو ڈرون حملے بند کرانے کیلئے قائل کررہے ہیں۔ دانشوروں اور عسکری مبصرین کا یہ خیال درست ہے کہ امریکہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر غیرمستحکم کر کے اسے خطے میں بھارت کی ریجنل سپرمیسی قبول کرنے پر مجبور کر کے پاکستان کی جیوپولیٹیکل حیثیت اور عسکری حیثیت کو چین کیخلاف استعمال کرنا چاہتا ہے اور ڈرون حملوں سے پاکستانی عوام کی شہادتوں کا سلسلہ اس لئے جاری ہے کہ پاکستان کے عوام پاک چین دوستی کا بندھن توڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ جس طرح دہشت گردی، قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبرپی کے میں سے ہوتی ہوئی ملک کے دوسرے حصوں خصوصاً پنجاب تک پھیل گئی ہے۔ لگتا ہے حکمرانوں کی کمزور خارجہ اور دفاعی حکمت عملی کے نتیجے میں ڈرون حملے بھی اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں کا رخ کر لیں گے۔ ڈرون حملوں کے ذمہ دار صرف پرویزمشرف ہیں تو موجودہ حکمرانوں کے دور میں ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اگر اس وقت عدلیہ، پاک افواج، پارلیمنٹ اور میڈیا نے مل کر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے بعض چہروں کو تبدیل نہ کیا تو بالاخر بھارت پاکستان کو اس کی ایٹمی تنصیبات سمیت اپنی کالونی بنا لے گا اور جس طرح موجودہ حکومت نے کشمیر کے پہاڑوں سے بہہ کر پاکستان میں آنے والے دریاؤں پر بھارت کے ڈیموں کی تعمیر کو قبول کر رکھا ہے اور خود پاکستان میں کالاباغ ڈیم جیسے مفید منصوبے کو ختم کر چکی ہے اس کے نتیجے میں پاکستان اپنی زرعی زمینوں کو سیراب کرنے اور بھوک سے بچنے کے لئے بھارت کے رحم و کرم پر آن کھڑا ہو گا۔ حکمرانوں میں قومی غیرت جگا کر اور امریکہ سے ڈالروں کی بھیک لینے سے انکار کر کے ایک خودمختار اور خوددار پاکستان کو زندہ رکھ کر ہی ملک کی سلامتی اور بقاء کی ضمانت ممکن ہے۔

ای پیپر دی نیشن