اسی زمانے میں جب ہم مصر، ترکی، ایران اور افغانستان وغیرہ کا حال دیکھتے ہیںتو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ لادینی الحاد پر قیاس کرتے ہوئے مسلم معاشروں میں تجددپسندی کی بنیاد پر ”اقدار“ کو تبدیل کرنا مکمل تباہی کا سبب ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اپنا علیحدہ تاریخی تشخص اور نظام زندگی ہے۔ لہذا ہم کسی طور پر مغرب کی طرح نفس پرستی اور انسان پرستی کے نام پر ہم جنس پرستی، شراب نوشی، زناکاری، Incestاور دیگر محرمات کی اباحت پر قانون سازی نہیں کرسکتے۔
پاکستانی مسلم معاشرے میں جہاں مردوعورت کا قانونی جسمانی تعلق نکاح کے ذریعے سے قائم ہوتا ہو، نومولود بچے کے کان میں پہلی آواز ”اشھدان لا الہ اللہ، اشھد ان محمد رسول اللہﷺ“ داخل ہوتی ہو، مرنے والے کی تجہیزو تکفین کے بعد نماز جنازہ ہوتی ہو اور معاشرے کے افراد اپنے نکاح و طلاق اور میراث و مالی مسائل کے حل کیلئے دارالافتاءکی طرف رجوع کرتے ہوں، صدقات واجبہ اور نافلہ کی ادائیگی میں مشائخ اور علماءپر اعتماد کرتے ہوں اور ختم نبوت اور ناموس رسالت کیلئے اپنی جان دینے اور دشمن کی جان لینے کیلئے تیار ہوں، وہاں روشن خیالی کی تبلیغ کرنے والے حضرات کس قدر ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام ایک لادین، ملحد اور کافرانہ ریاست و نظام کے خواہاں ہیں فیا للعجب!
ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ایمان برملا ”یاایھا الکافرون لا اعبد ماتعبدون“ کا اظہار کریں اور قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ روشن خیالی ”Enlightenment“ کے بارے میں کانٹ اپنے مضمون (1784)”What is Enlightenment“ میں لکھتا ہے:
”روشن خیالی سے مراد انسان کا خود پر عائد کردہ ذہنی ناپختگی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ ذہنی ناپختگی اپنی عقل و فہم کو استعمال نہ کرسکنے کی کیفیت ہے مگر اسکی وجہ انسانی عقل و فہم کا عدم وجود نہیں بلکہ انسان کے اندر اس جرا¿ت اور پختہ ارادہ کی کمی ہے جو اسے کسی اور کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل استعمال کرنے کے قابل بناسکے۔ اپنی عقل و فہم کو استعمال کرنے کی جرآت کرو۔ یہی روشن خیالی کا مقصد ہے۔“
یعنی روشن خیالی میں اللہ، رسول، کتاب اللہ، عحی الٰہی کی کوئی گنجائش نہیں۔ انسان کے روشن خیال ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل کو اس طور پر استعمال کرے کہ اس پر کسی کتاب یا مذہبی شخصیت کا ہرگز تسلط نہ ہو۔ اسلام کے مطابق یہ ”روشن خیالی“ نہیں بلکہ ”تاریک خیالی“ ہے جو جہنم کی تاریکی کی طرف لے جاتی ہے۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان پر مشرکین کا حملہ ہوا تو قوم کہ ”سیکولرازم“ کے نام پر نہیں بلکہ ”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر جمع کیا گیا ہے اور جب ہم نے اس کلمہ طیبہ کو چھوڑ کر لسانیت اور قوم پرستی کا نعرہ لگایا تو ہم دو لخت ہوگئے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے:
ترجمہ ”اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اسکی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاﺅ۔“
ترجمہ ”اور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کرسکتے لیکن اللہ نے انکے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بے شک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے۔“
یقینا اللہ کی وہ نعمت عظمیٰ جس کی بدولت اللہ نے ہمارے درمیان محبت پیدا فرمائی اور ہمیں بھائی بھائی بنا دیا وہ محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے جن کے بارے میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ”پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونیوالے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنا لیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔“
پاکستان کیوں کیسے اور کس لئے؟ .... (۴)
Apr 15, 2013