امریکہ کو افغانستا ن سے باعزت واپسی کیلئے پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے:حمید گل جس طرح امریکہ ہماری مدد کے بغیر یہاں آ نہیں سکتا تھا آج ایسے ہی یہاں سے واپس بھی نہیں جاسکتا آنے کیلئے بھی ہم نے اسے کندھے پیش کئے اب واپسی کیلئے بھی انہیں سکیورٹی مہیا کرینگے....
اللہ بچائے میری جاں۔۔۔ کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی
رضیہ غنڈوں کے درمیان پھنسی تھی یا یہ صرف فلمی گانے کی حد تک ہے،لیکن یقین کریں آج امریکہ رضیہ سے بھی بُری طرح پھنسا ہوا ہے۔رضیہ کو غنڈوں سے چھڑوانے کیلئے جس طرح ہیرو کی ضرورت پڑتی ہے آج ایسے ہی امریکہ کو طالبان سے جان چھڑوانے کیلئے پاکستان کی ضرورت پڑ چکی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہیں اور جب تک افغان باقی ہے کہساربھی باقی ہے کیونکہ انکا بڑا ہتھیار کہساروں میں بنے غار ہیں۔روس کی کمر پہلے ٹوٹی تھی امریکہ کو اس سے ہی عبرت پکڑ لینی چاہئے تھی لیکن امریکہ نے افغانستان کے کہساروں سے سر پیٹنے کا فیصلہ کرکے بہت سارے دوست ممالک کو بھی آگ میں دھکیل دیا۔اب پچھتاوے کے سوا انکے پاس کچھ بھی نہیں لیکن اب کا پچھتاوا کسی کام کا نہیں ہے۔٭....٭....٭....٭....٭ چیف جسٹس کے بغیر فل کورٹ بنایاجائے: مشرف۔”زبان درست کریں“ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس پرویز مشرف آج راندہ درگاہ ہیں اس کے باوجود ان کا نام عزت و احترام سے لیاجاتا ہے۔ میاں نواز شریف بھی انہیں ”مشرف صاحب“ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن مشرف نے سپریم کورٹ میں جو جواب داخل کروایا ہے اس میں انہوں نے پڑھے لکھے جاہل ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔چیف جسٹس تو پہلے ہی ان کے کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ نہیں لیکن مشرف کو وہ اب خواب میں بھی نظر آتے ہیں۔مشرف نے زندگی کا بڑا حصہ فوج میں گزارا لیکن جو ڈسپلن وہاں سیکھا تھا لگتا ہے وہ سب ”کھوہ کھاتے“ لگ گیا ہے۔مشرف کے گرد جو جال کھینچا گیا ہے اس میں وہ لاکھ تڑپ لیں لیکن اب فرار ممکن نہیں۔مشرف نے دس سال جو پیسہ کمایا لوگوں کو بیچا اور جو جو لُچ تلے اب انہیں ان کا حساب دینا ہوگا۔وکلا کی فیس تو ہر طرح کھری کی کھری ہے،مقدمہ ہارے یا جیتے ۔شاعر نے کہا تھا
ان کو کیا کام ہے مروت سے۔۔۔ اپنے رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گےجان منصف تو چھوڑ دیں شائد۔۔۔ وکلا فیس کو نہ چھوڑیں گے
اربوں کھربوں کے جو اثاثے بنائے ہیں وہ اب وکلا کی فیس اور اپنی سکیورٹی پر ہی خرچ ہونگے عدالتوں میں دوچار چکر لگے تو زبان سیدھی ہونے کے ساتھ ساتھ عقل بھی ٹھکانے آجائے گی۔٭....٭....٭....٭....٭ خبر ہے کہ جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ میں ایل ایل بی کے طلبامیں لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔ مدارس کے طلبا کا ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کرنا اچنبھے کی بات ہے لگتا ہے کوئی ماڈرن مدرسہ ہے ورنہ تو بعض علماءحضرات انگلش پڑھنا سرے سے جائز ہی نہیںسمجھتے۔متحدہ مجلس عمل کی جب صوبہ خیبر پی کے میں حکومت آئی تو اس وقت ممبران کی اکثریت کا تعلق مدرسوں سے تھا۔انگلش نہ آنے کے باعث انہوں نے ساری دفتری کارروائی کو اردو میں کردیا تھا۔ جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ اقبال ٹاﺅن لاہورکے 12ہونہار طلبہ نے پہلے حفظ کیا پھر درس نظامی اور اب ایل ایل بی مطلب کہ اب مولانا حضرات نے عدلیہ کا رخ بھی کرلیا ہے۔پُر امن انقلاب تو ایسے ہی آئیگا دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم ہر مدرسے میں لازمی ہونی چاہئے تاکہ مدارس کے طلبا دوسروں کا محتاج بننے کی بجائے اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوجائیں۔اب قدیم اور جدید تعلیم آپس میں ملے گی تو پُر امن انقلاب آئیگا۔ حافظ قرآن، حدیث،فقہ،منطق اور اصول پڑھا ہوا نوجوان جب وکالت کرے گا تو یقین جانیے ان مدارس کی توقیر اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور دینی اور دنیاوی طلبا کے مابین کھینچی ہوئی لکیر بھی ختم ہوجائے گی۔علامہ اقبال نے ایسے ہی طلبا کے بارے میں فرمایا تھا....
سبق پھر پڑھ صداقت کا امانت کا دیانت کا۔۔۔ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ایسے طلبا معاشرے کا جھومر ہوتے ہیں۔تمام مدارس اگر جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کی پیروی کریں تو یقین جانیے دہشت اور انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑاجاسکتا ہے۔٭....٭....٭....٭....٭ کراچی، خواجہ سراﺅں کی ”بندیا“ کیلئے مہم ٹھمکے لگا کر ووٹ مانگنے شروع کردئیے۔ ٹھمکے لگانا تو خواجہ سراﺅں کا پیشہ ہے یہی انکے پاس روزگار کمانے کا واحد ذریعہ ہے۔ویسے آجکل کافی سیاسی رہنما بھی خواجہ سراﺅں جیسے ٹھمکے لگانے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ٹھمکے لگا کر بھی اگر کوئی ووٹ دیتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں ۔سیاسی لوگوں کی اصل کمائی تو سیٹ جیتنے میں ہے چاہے وہ ٹھمکے لگا کر جیتی جائے یا پاﺅں پڑکر۔ پہلے الیکشن لڑنے کیلئے چوہدری، ملک، کھر،لغاری، مزاری، جاٹ ،چٹھہ ہونا ضروری ہوتا تھا کیونکہ یہ بڑے بڑے خاندان ہی الیکشن جیتتے تھے اور پھر عوام کو بھکاریوں کی طرح آگے لگا کر رکھتے تھے لیکن اب تو محلے کی مسجد کے امام صاحب،چائے فروش، ہاری، فلمی اداکار اور خواجہ سرا بھی میدان میں آچکے ہیں۔بھٹو نے غریبوں کیلئے آواز اٹھائی تھی لیکن65سالوں میں صرف وعدے اور بلند بلند نعرے سننے کے بعد اب غریب مجبوراً خود ہی میدان میں آگئے ہیں شاعر نے کہا تھا....
عجب فلمی زمانے آگئے ہیں۔۔۔ کہ خبروں میں بھی گانے آگئے ہیںفقط فلموں میں جٹ گجر نہیںہیں۔۔۔ سیاست میں بھی رانے آگئے ہیں
مونچھوں والی سرکار ہمارے سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ جیسے افراد اگر وزیراور ظہیر الدین جیسے لوگ اپوزیشن لیڈر بن سکتے ہیں تو پھر خواجہ سرا بھی ایم پی اے اور ایم این اے بن سکتے ہیں بس کسی ایک خواجہ سرا کو اسمبلی پہنچنے دیں وہ اسمبلی فورم پر سب ممبران سے ٹھمکے لگوائے گا۔ خواجہ سراﺅں کا منشور ہے....
آزمائے ہوﺅں کو نہ آزماﺅ۔۔۔ خواجہ سراﺅں سے ہاتھ ملاﺅ
عوام نقلی خواجہ سراﺅں کی بجائے اصل کو بھی ووٹ دیں کیونکہ تبدیلی کا وہ بھی حصہ ہیں۔