شفاف انتخابات میں ناکام ہو گئے تو جمہوریت مضبوط کرنیکا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا : چیف جسٹس

کوئٹہ (بیورو رپورٹ) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ موجودہ وقت میں پاکستان کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے جس میں امن وامان ،معاشی اور توانائی کے بحران ،مذہبی اور نسلی انتہاءپسندی شامل ہے جو سماجی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں منتخب نمائندے صاف و شفاف انتخابی عمل کے نتیجے میںسامنے آکر ان بحرانوںکو ختم کرنے میں اپنا کردارادا کرسکتے ہیں اس طرح جمہوریت کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچیں گے۔ یہ بات انہوں نے اتوار کو بلوچستان ہائی کورٹ میں صوبے بھر کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت اور جمہوریت کا تقاضا ہے اس طرح آئین اورقانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھا جاسکتا ہے ۔چیف جسٹس نے ریٹرننگ افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم شفاف انتخابات کے انعقاد میں ناکام ہوگئے تو جمہوریت کو مضبوط کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا اور اس سے معاشرے کے سماجی اور سیاسی پہلوﺅں کو نقصان پہنچے گا۔ شفاف انتخابات آئین کی حکمرانی قائم کرتے ہوئے حقیقی جمہوریت قائم کرتے ہیں ابھی تک جمہوریت کے ثمرات براہ راست معاشرے تک نہیں پہنچ سکے۔ ہماری جمہوری تاریخ تکلیف دہ باتوں سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے عوام جمہوری ثمرات سے محروم رہے جمہوریت کو ملک میں کئی بار غیر آئینی ذرائع سے ختم کیا گیا لیکن اب جمہوریت کے سنہری اصولوں کو تسلیم کرلیا گیا ہے لوگوں کو اپنے منتخب نمائندے براہ راست منتخب کرنے کا اختیار ہے۔ قانون ہر شہری کو کسی سماجی ،نسلی یا مذہبی امتیاز کے بغیر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق مکمل طور پر نہیں دیا گیا حالانکہ خواتین آبادی کے نصف حصہ پر مشتمل ہیں اس طرح مرد ووٹرز کی نسبت تمام خواتین ووٹرز کو رجسٹر ڈ نہیںکیا جاسکا۔ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ خیبر پی کے اور بلوچستان میں خاندان کے مرد اپنی خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے یا پھروہ اپنی خواتین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص امیدوار کوہی ووٹ ڈالیں۔ ووٹر ایجوکیشن کمی کی وجہ سے بہت سارے ووٹ طریقہ کار کے مطابق استعمال نہیں ہوپاتے خواتین ووٹرز کو اپنے نمائندے چننے کا بھی مکمل موقع نہیں مل پاتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسٹاف خصوصاً خواتین عملہ جو الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تعینات کئے گئے ہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ وہ خواتین ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے عمل میں اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دیں گے ۔چیف جسٹس نے سر ونسٹن چرچل کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کو جو بھی اعزازات دیئے جاتے ہیں اس کا سہرا عام آدمی کے سر ہوتا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کرنا ہونگی حال ہی میں سپریم کورٹ نے کئی ایسے مقدمات کا فیصلہ کیا جو آئین کے آرٹیکل 19Aکے تحت معلومات تک عام شہری کی رسائی سے متعلق تھے ان فیصلوں کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ووٹرز کو اپنے امیدواروںکے متعلق معلومات کی رسائی کا حق حاصل ہے جیسا کہ عدالت عظمیٰ نے میاں نجیب الدین اویسی بنام عامریار کے فیصلے میں کہا ہے کہ ووٹر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کی طرف توجہ رکھے کہ آئینی اورقانونی طریقے کے مطابق ایماندار لوگ منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں آئیں۔ آئین کے آرٹیکل 218کے تحت الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق شفاف انتخابات کرائے اور انتخابی عمل کو ہر طرح کی بدعنوانی سے محفوظ رکھے اسی طرح آئین کا آرٹیکل 220وفاقی اور صوبائی حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ الیکشن کمشن کی پوری طرح مدد کریں۔ ریٹرننگ افسروں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد انکا مقدس فریضہ ہے مجھے پورا اعتماد ہے کہ ریٹرننگ افسر اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم آئین کے تحفظ کے لئے پرعزم ہیں، بلوچستان کو امن وامان اور گورننس سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ الیکشن کو شفاف بنانے کےلئے ریٹرنگ افسروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، ریٹرننگ افسر عدلیہ کی نمائندگی کررہے ہیں ، آئینی اداروں کا فرض ہے کہ وہ انتخابات سے متعلق الیکشن کمشن کی مدد کریں۔ خواتین کو بھی انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کا برابر حق ملنا چاہیے ۔ ووٹرز انتخابات میں سب سے بڑے فریق ہیں ، عوامی نمائندے کوشش کریں تو تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ریٹرننگ افسروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں۔ بلوچستان میں عدلیہ نے پہلے بھی کامیابی سے کام کرتے ہوئے اپنے اہداف کو مکمل کیا ہے اب بھی کامیابی سے کام کرنا ہے۔ تمام آئینی اداروں کا فرض ہے کہ وہ انتخابات سے متعلق الیکشن کمشن کی مدد کریں اور خواتین کو بھی انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کے مساوی حق ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا بہت سے ووٹرز کو صحیح نمائندگی نہیں ملتی جبکہ انتخابات میں ووٹرز سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ عوامی نمائندے سامنے آئے تو اس ملک میں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...