لندن (خصوصی رپورٹ خالد ایچ لودھی) 2003ءمیں عراق پر امریکی حملے کے بعد امریکی فوجیوں نے بغداد میں قائم امریکی سی آئی اے کے خفیہ ٹارچر سیل میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان مراکز میں عراقیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔ امریکی فوجیوں نے بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کیں جو کہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ برطانوی ائر فورس کے ایک سینئر افسر نے جو کہ امریکی افواج کے ہمراہ عراق میں فوجی مداخلت کے وقت انتہائی اہم مشن پر تھا انکشاف کیا ہے کہ عراق میں امریکی سی آئی اے نے خفیہ جیلوں میں عراقی عورتوں اور بچوں کے علاوہ عمر رسیدہ افراد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں بے شمار اموات بھی واقع ہوئیں۔ بغداد میں ”کیمپ نامہ“ نامی خفیہ ٹارچر سیل میں عراقی قیدیوں کو کتوں کے پنجروں میں بند رکھا جاتا تھا اور ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے تھے۔ قیدیوں کو بند شپنگ کنٹینرز میں نقاب پہنا کر لایا جاتا تھا۔ امریکی اور برطانوی ٹاسک فورس 121 کے مشترکہ یونٹ مل کر عراقی شہریوں کے گھروں کی تلاشی لیتے تھے اور عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔ جب یہ تصدیق ہو گئی کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی ہے ہی نہیں تو پھر TF121 فورس نے اپنی حکمت عملی بدل کر صدر صدام حسین کے حامیوں کو القاعدہ تنظیم سے وابستہ کر دیا اور ان کے خلاف فوجی آپریشن کو پورے ملک میں پھیلا دیا جس کے تحت پورے عراق میں امریکی سی آئی اے نے خفیہ جیلوں کا جا ل بچھایا اور ان جیلوں میں پینٹاگان کے افسران نے مل کر تشدد آمیز کارروائیوں میں حصہ لیا۔ امریکی سی آئی اے کی انسانیت سوز کارروائیوں کے بارے میں ”ابو غریب“ کیمپ میں عراقیوں کی ہلاکتوں کے انکشاف کے بعد انٹرنیشنل ریڈ کراس نے ان واقعات کو عالمی سطح پر میڈیا میں پیش کیا لیکن CAMP NAMAکو ہمیشہ ہی خفیہ رکھا گیا۔ اس کیمپ تک کسی کو بھی رسائی حاصل نہ تھی۔ اس خفیہ ٹارچر سیل تک رسائی صرف امریکی فوج کے جنرل میکرسٹل کو حاصل تھی جو کہ اس وقت عراق میں امریکی افواج کے سپیشل فورسز یونٹ کے آپریشن کمانڈر تھے۔ امریکی افواج کی خواتین فوجی افسران نے بھی عراق میں عراقیوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم میں برابر شرکت کی اور عراقی خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ فروری 2004ءمیں برطانوی سپیشل سروسز کے سینئر افسران نے اٹیلی جینس افسران کے ہمراہ مل کر عراق کے مختلف شہروں میں گھر گھر تلاشی کے دوران جن لوگوں کو گرفتار کیا ان میں عراقیوں کے علاوہ برطانوی خفیہ ایجنسی Mi6 نے اپنے چھاپوں کے دوران دو پاکستانیوں کو بھی گرفتار کیا جو کہ تمام کے تمام امریکی سی آئی اے کے حوالے کر دیے گئے۔ ان افراد سے تحقیقات کے بعد ان کو مزید معلومات کے لئے عراق کے خفیہ کیمپ NAMA سے افغانستان میں بگرام منتقل کر دیا گیا جو بعد میں امریکی افواج کی تحویل میں رہے۔ امریکی میڈیا میں ابو غریب کیمپ میں انسانیت سوز واقعات کی تفصیل شائع ہونے کے بعد قیدیوں کو فوری طور پر ٹاسک فورس 121 سے لے کر 6-26کے سپرد کر دیا گیا اور پھر ان قیدوں کو نامعلوم مقام پر واقع خفیہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ ان تمام سرگرمیوں میں امریکی ڈیلٹا فورس کے ہیلی کاپٹروں کو استعمال میں لایا جاتا تھا جو کہ مختلف خفیہ مقامات پر تحقیقاتی مراکز تک اپنی پروازیں جاری رکھے ہوئے تھے۔ عراق میں امریکی سی آئی اے کی انسانی حقوق کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے والے بی بی سی کے صحافی مارک اربن کے مطابق برطانوی خفیہ ادارے Mi6 کے افسران نے عراق میں خفیہ ٹارچر سیلز اور جیلوں میں ہونے والی انسانیت سوز کارروائیوں کے خلاف برطانوی وزارت دفاع کو تفصیلی رپورٹ دی جس کے بعد برطانوی افواج کو امریکی سی آئی اے کی ان کارروائیوں سے الگ رہنے کو کہا گیا اور برطانوی وزارت دفاع نے امریکی وزارت دفاع سے بھرپور احتجاج بھی کیا اور برطانوی فوجیوں کو محتاط رویہ اختیار کرنے کے احکامات جاری کئے۔ فروری 2009ءمیں اس وقت کے برطانوی وزیر دفاع جان ہوٹن نے برطانوی پارلیمنٹ میں اپنا بیان دیتے ہوئے برطانوی فوجیوں اور ایم آئی 6پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی۔ لیکن برطانوی وزیر دفاع جان ہوٹن کے بیان کو برطانوی ممبر پارلیمنٹ اور سابق فوجی افسر کرسپن بلنٹ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ برطانوی ایجنسی اور فوجیوں کے عراقیوں پر تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے بارے میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ برطانوی وزارت دفاع نے عراق میں ہونے والی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا مگر امریکی سی آئی اے نے اپنے طور پر انکوائری کروانے کے اعلان کے بعد کوئی عملی تعاون کیا ہی نہیں۔ برطانوی وزارت دفاع کے کردار پر بھی برطانوی قانون دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور ذمہ داروں کے خلاف جنگی جرائم کے قوانین کے تحت جنیوا کنونشن کے مطابق کارروائی پر زور دیا ہے۔