سپریم کورٹ نے تین نومبر کے اقدام اورآرٹیکل چھ کے تحت پرویزمشرف کیخلاف مقدمہ پر وفاق سے تحریری جواب طلب کرلیا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے پرویزمشرف کے خلاف دائردرخواستوں کی سماعت کی۔ عدالتی نوٹس کے باوجود وفاق اوروزارت قانون کے نمائندے عدالت میں پیش نہ ہوئے جس پر برہمی کااظہارکرتےہوئےعدالتی بینچ نےاٹارنی جنرل اورسیکرٹری قانون کوفوری طورپراکتیس جولائی کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہونے والی کاروائی کے ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہونے کی ہدایت کی۔ جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے وفاق کواس کیس سے کوئی دلچسپی نہیں، مختصر عدالتی وقفے کے بعد سینئیرجوائنٹ سیکرٹری وزارت قانون سہیل قدیرنے بتایا کہ وزارت میں سیکرٹری کا عہدہ خالی ہے، جبکہ اکتیس جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا وزارت داخلہ کی ذمہ داری تھی۔ جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادرکا کہنا تھا کہ اکتیس جولائی کےفیصلےمیں صرف پی سی اوکے تحت حلف اٹھانے والےججوں کےخلاف توہین عدالت کی کاروائی کا حکم دیا گیا تھا۔ جس سے تاثرملا کہ عدالت باقی کسی کے خلاف کاروائی نہیں کرنا چاہتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ چارسال کے بعد بھی حکومت کی طرف سے اکتیس جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ جبکہ سینٹ میں پرویزمشرف کی ملک واپسی پرگرفتارکرنے کی قرارداد بھی پیش ہوئی تھی۔ وفاق بتائے کہ سینٹ کی قرداد اورعدالتی فیصلے پرکیا عملدرآمد کیا گیا۔ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل احمدرضا قصوری نےکہا کہ ان کے موکل نے چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے علاوہ لارجربینچ تشکیل دینےکی استدعا کی ہے، جبکہ تین نومبرکےاقدامات کوپانچ سال گزرچکے ہیں لہذا معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ پرویزمشرف کےخلاف مقدمےمیں نامورسماجی رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ نےبھی فریق بننےکی درخواست دائرکی۔ عدالتی بنچ نےوفاق کو ہدایت کی کہ تحریری طورپربتایاجائے کہ تین نومبر کے اقدامات آئینی تھے یا غیرآئینی اورپرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ بنتا ہے یا نہیں، جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت سترہ اپریل تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن