جس طرف آنکھ اٹھاﺅں، تیری تصویراں ہے

خدا کی پناہ! اتنا مبالغہ اتنا جھوٹ.... لوگ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاﺅں کہاں.... مگر یہاں تو جھوٹ مجسم نظر آ رہا ہے۔ گیلپ پاکستان کی رپورٹ پڑھنے کے بعد یہ یقین آ گیا کہ پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے یعنی یہاں بغیر پڑھے لکھے ایم بی بی ایس کی ڈگری مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے آج پاکستان کے ہر ہسپتال میں جعلی ڈاکٹر بھرے ہوئے ہیں۔ گلی کے ہر نکڑ پر پرائیویٹ کلینکوں میں بغیر ڈگری کے ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ اسی لئے آج پاکستان میں ہیلتھ کے شعبے میں سب سے زیادہ کرپشن ہے۔اسی طرح جعلی ڈگریوں پر معزز ارکان اسمبلی بلکہ وزرا ومشیروں کی تعداد آج بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ ہر ہفتہ ایک نیا کیس سامنے آ جاتا ہے۔ رشتوں میں سب سے زیادہ جھوٹ اور مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں رشتے ٹوٹنے اور جوڑے الگ ہونے کی سب سے بڑی وجہ جھوٹ ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے رشتے ابتدا میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ تاہم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے جھوٹ کا کوئی انت نہیں ہے۔ یہ لوگ جھوٹ کی بنیاد پر عیش کرتے ہیں اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی جھوٹ کی لت لگا دیتے ہیں۔ ان سے وابستہ لوگوں کی مثال ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار“ والی ہے۔ اب مثال کے طور پر گیلپ سروے کی رپورٹ پڑھیئے اور دیر تک ہنسیئے.... یہ کمپنی خاص خاص اوقات میں اپنی رپورٹ چلاتی ہے۔ گیلپ سروے میں وہ تمام باتیں ہوتی ہیں جنہیں سچ سے علاقہ نہیں ہوتا۔ اس رپورٹ کی زبان اور سابقہ بتا رہا ہوتا ہے کہ پیسے بول رہے ہیں۔ مثال کے طور پر گیلپ سروے میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومت سے 59 فیصد بہتر رہی ہے۔ نوازشریف کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ وزرائے اعلی میں شہباز شریف سب سے آگے ہیں۔ پاکستان بھارت تعلقات، معاشی بہتری کیلئے حکومتی اقدامات بہت بہتر رہے۔ گیلپ سروے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت میں 18 فیصد اضافہ ہوا لیکن عمران کی مقبولیت میں 5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ آصف زرداری کی مقبولیت میں 28 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، منورحسن، چودھری شجاعت، عمران سبھی کو ناپسندیدہ یا منفی قرار دیا گیا ہے اور جابجا نواز شریف کی تعریفوں کے طومار باندھے گئے ہیں۔ ذرا یہ چند جملے ملاحظہ فرمائیے.... ”سروے میں نوازشریف کے طرز حکمرانی کو ماضی کے مقابلے میں شاندار قرار دیا گیا ہے.... وزرائے اعلی میں میاں شہباز شریف برتر اور سرفہرست ہیں.... بطور لیڈر صرف نواز شریف کو پسندیدگی کی سند دی گئی ہے....
یہ گیلپ سروے نہیں، جھوٹ کا پلندہ ہے۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ تمام تعریفیں تمام اعدادوشمار اور تمام آراءو بیانات جعلی ہیں۔ نہ تو بڑے پیمانے پر سروے ہوا۔ اور نہ ہی واقعتاً اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے ہیں۔ یہ ایک ٹیبل سٹوری ہے کیونکہ اس میںحقائق کا فقدان ہے۔ میڈیا فعال ہونے کی وجہ سے اب بے شمار جعلسازی کے کام پکڑے جانے لگے ہیں۔ آپ چاہیں تو اس گیلپ سروے کا تجزیہ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ گیلپ سروے خواہش اور فرمائش پر ظہور میں آیا ہے۔ بین السطور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے مثلاً بار بار میاں نواز شریف کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں جو کسی سروے کی روح کے منافی عمل ہے۔ سروے میں قصیدہ خوانی نہیں کی جاتی۔ مثلاً یہ کس قدر مضحہ خیز مذاق ہے کہ میاں نواز شریف کے عہد حکومت میں پاکستان کے اقتصادی، خارجی اور معاشرتی حالات کامیاب اور بہترین رہے ہیں۔ پاکستان گزشتہ ایک برس میں کرب وابتلا سے گزرا ہے۔ اقتصادی طور پر پہلے سے کمزور ہوا ہے، مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے پاکستان کا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ تباہی کی دہلیز پر کھڑا سسکیاں لے رہا ہے۔ سفارتی سطح پر پاکستان اس حد تک تنہا اور بدنام ہو چکا ہے کہ خود پاکستان کے پڑوسی، اسلامی برادر ممالک افغانستان، ایران، بنگلہ دیش بھی اب ہمیں لتاڑنے لگے ہیں اور ہمیں قابل بھروسہ سمجھنے کے بجائے ہم پر بھارت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کو ہراساں کر دیا ہے۔ امن وامان کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔ ہر دوسرے دن دھماکے، ہڑتالیں، احتجاج، مظاہرے ہو رہے ہیں۔ روزانہ ایک درجن سے زائد افراد بیروزگاری غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام نفسیاتی مریض بن رہی ہے۔ بھارت مسلسل پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف کی تعریفوں کے اتنے پل باندھے گئے ہیں کہ تمام پل اوورہیڈ برج شرما گئے ہیں۔ میاں برادران کے مخالف سیاستدانوں کی بڑھ چڑھ کر بدخوئی کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چلو قائم شاہ عیب والے ہیں مگر پرویز خٹک توپاپولر ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک تو شریف الناس ہیں لیکن تعریف صرف شہباز شریف کی.... یہ بات کسی کو ہضم نہیں ہوئی۔ شاید اس لئے عمران خان چلا اٹھے کہ وزیراعظم صرف شہباز شریف کو بیرون ملک کیوں لے جاتے ہیں آخر دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ میں کیا خرابی ہے؟ پاکستان میں بہت کچھ جعلی ہو رہا ہے۔ ساری دنیامیں سروے حقیقی اعدادوشمار پر وجود میں آتے ہیں لیکن پاکستان میں جس طرح ”خواہش“ کو خبر بنا لیا جاتا ہے۔ اسی طرح حقائق میں فسانہ طرازی کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں جعل سازیوں کے اتنے ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں کہ ان میں ”سچ“ تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہماری آنکھوں میں جو منظر کھینچ دیا جاتا ہے، ہمیں وہی سچ دکھائی دینے لگتا ہے۔ کاش یہ گیلپ سروے سچ پر قائم ہوتا تو دل خود بخود گنگنا اٹھتا کہ....
جس طرف آنکھ اٹھاﺅں، تیری تصویراں ہے
نہیں معلوم یہ خواباں ہے کہ تعبیراں ہے

ای پیپر دی نیشن