تجھے آج کہاں دیکھ رہا ہوں

قارئین اور دوستوں کی اکثریت سوال پوچھتی ہے کہ سیاسی خانوادے اور ماحول سے تعلق رکھنے کے باوجود میں سیاسی موضوعات پر لکھنے کی بجائے عوامی ایشوز پر زیادہ کیوں لکھتا ہوں جوابتاً کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے یہاں سیاسی ایشوز پر قلم اٹھانے والوں کی کمی نہیں صورتحال تو یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے پاس عوامی ایشوز پر لکھنے اور بات کرنے والوں کا قحط پڑنے والا ہے ہر نیا اور پرانا قلمکار سیاست ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک لفظ کی ترمیم کے ساتھ یہ شعر دھرانا پڑ رہا ہے۔....
 میرے وطن کی صحافت کا حال مت پوچھو
 گھری ہوئی ہے صحافت تماش بینوں میں
مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے ملک کی سیاست کا جو بیڑا غرق ہو چکا ہوا ہے اس کا آدھے سے زیادہ کریڈٹ ان نام نہاد صحافیوں کو جاتا ہے جنہیں یا تو صحافت کے اسرار و رموز کا پتہ نہیں یا پھر وہ مختلف ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں۔پاکستان کی بربادی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں سیاستدان، صحافی، عدالتیں اور جرنیل کوئی بھی ثابت نہیں کر سکتا کہ وہ پاکستان کے آئین و قانون کو نقصان پہنچانے کے عمل میں شریک نہیں رہا۔ اکثر امنگ اٹھتی ہے کہ پرویز مشرف ایشو پر قلم اٹھاﺅں، طالبان کی اچھائیوں برائیوں کا تذکرہ کروں، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ذمہ داروں اور پاکستان کے مقدر میں اندھیرے لکھنے والوں کی جانوں کا سیاپا کروں پاکستان کے خزانے کو دیمک کی طرح چاٹنے والوں کیلئے ماتم کروں مہنگائی و بے روزگاری کے ذمہ داروں کی خدمت کروں مگر ایسا کر نہیں پاتا کیونکہ جانتا ہوں کہ جہاں سیاست اور صحافت کے میدان پر بونے اور کٹھ پتلیاں مسلط ہوئی ہوں وہاں کلمہ حق کی آواز دب کر رہ جایا کرتی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کلمہ حق دبے اس لئے میں حق کی آواز کو محفوظ رکھے ہوئے مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہوں اور خود کو عوامی ایشوز تک محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔مجھے یہ سچ نہایت دکھی دل کے ساتھ بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں محب وطن سیاستدانوں، حکمرانوں، صحافیوں، مصنفوں کا قحط پڑ چکا ہے یا پھر ماﺅں نے محمد علی جناح، ظفر علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، حمید نظامی، مجید نظامی ، غازی علم دین جننے بند کر دئےے ہوئے ہیں۔ رب کعبہ میرے اور آپ کے محبوب ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی کو سلامت رکھے انہی کے دم سے کلمہ حق سننے کو ملتا رہتا ہے ورنہ ہم تو اجتماعی طور پر جذبہ حب الوطنی سے دور بہت دور نکل چکے ہوئے ہیں۔
آئےے چلتے ہیں ایک عوامی ایشو کی طرف:
نامہ نگار نوائے وقت لاہور نے خبر دی ہے کہ دعوت گناہ دے کر لوٹنے والی خواتین سرگرم ہو گئیں خبر کے مطابق علامہ اقبال ٹاﺅن، ایم ایم عالم روڈ، اچھرہ سٹاپ، شادمان، لاری اڈا، بند روڈ سمیت دیگر علاقوں میں شام ہوتے ہی خواتین کی بڑی تعداد سڑکوں پر دعوت گناہ دیتی ہیں یہ گینگ مختلف علاقوں میں وارداتیں کرتے ہوئے روزانہ شہریوں کو ہزاروں روپوں سے محروم کر رہے ہیں۔ پولیس سر عام لوٹ مار کرنیوالے ان گروہوں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی بلکہ متعلقہ محافظ اور اہلکار مبینہ طور پر ان سے رشوت لیکر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور شکایت کرنے والوں کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ عیاشی کے نام پر مردوں اور نوجوانوں کو لوٹنے والی عورتوں کا ایک بڑا منظم گروہ قائم ہو چکا ہوا ہے جس میں پولیس، رکشہ ڈرائیور اور دیگر زور آور افراد شامل ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ شہر کے پولیس علاقوں کی سڑکوں پر سر عام ہو رہا ہے ان رہزن لڑکیوں کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں اور یہ سب کیا دھرا مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے شرم آنی چاہئےے محکمہ پولیس کو جس کی ناک تلے وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے؟

ای پیپر دی نیشن