اغوا اور بھتہ خوری کا تدارک، کڑی سرعام سزائیں

پاکستان میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چند برسوں سے اغوا اور بھتہ خوری نے ایک صنعت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس منافع بخش کاروبار سے وابستہ افراد راتوں رات امیر بن جاتے ہیں۔ یہاں عموماً امیر خاندان کے افراد کو تاوان کیلئے اغوا کیا جاتا اور کاروباری لوگوں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے وہیں اس بزنس سے منسلک مافیا بہت طاقتور ہے۔ ان کو اعلیٰ حکام کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اغوا اور بھتے کی وارداتیں سب سے زیادہ کراچی میں ہوتی ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اغوا کی وارداتوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے جون کے اواخر تک مختلف نوعیت کے اغوا کی 7139 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ رپورٹ نہ ہونے والی وارداتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ مغوی کے خاندان والے پولیس میں رپورٹ کر کے اپنے پیارے کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالتے، ان کو پولیس کی اہلیت کا ادراک ہے۔ اغوا ، ڈکیتی اور بھتے کی کئی وارداتوں میں پولیس والے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
پنجاب میں کئی اہم شخصیات کو اغوا کیا گیا ہے جن میں بڑے گروہ ملوث ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو مئی 2013ءمیں ملتان سے انتخابی مہم کے دوران اغوا کیا گیا۔ مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر بھی لاہور سے اغوا ہوئے۔ ایک امریکی شہری وارن وائن اسٹائن کو صوبائی دارالحکومت کے علاقے ماڈل ٹاو¿ن سے اگست 2011ءکو اغوا کیا گیا تھا۔ وارن وائن اسٹائن اکنامک ڈویلپمنٹ سمیت یو ایس ایڈ کے متعدد پروجیکٹس پر کام کر رہا تھا۔ اغوا کی وارداتوں میں صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں چھ ماہ میں اس جرم کی 1711 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ گذشتہ برس اس صوبے میں پورے سال میں 1661 افراد اغوا ہوئے تھے۔
صوبہ خیبر پی کے میں اغوا کی وارداتوں میں سال دو ہزار دس سے اضافہ ہو رہا ہے۔ شدت پسندی سے متاثرہ خیبر پی کے میں گزشتہ سال 15 جولائی تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 524 لوگ اغوا ہوئے ہیں۔ ملک میں ہونے والی اغوا کی بہت سی وارداتوں کے تانے بانے خیبر پی کے اور خاص طور پر قبائلی علاقوں کے مسلح گروہوں سے جُڑے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں کچھ افراد کا اغوا نظریاتی اختلافات کے باعث جائز سمجھتی ہیں لیکن اغوا کی ان وارداتوں کے پیچھے اور بھی کئی محرکات کارفرما ہوتے ہیں۔ پشاور سے وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اجمل خان بھی دو سال سے زائد عرصے سے طالبان کے قبضے میں ہیں۔ طالبان نے شہریار تاثیر اور علی حیدر گیلانی کو اغوا کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ سابق اور موجودہ حکومت کے پاس طالبان کے پاس مغویوں کو بازیاب کرانے کی ہمت ہے نہ کوئی حکمت عملی، حکومت نے طالبان کے ساتھ اعتماد سازی اور خیر سگالی کے نام پر کئی قیدیوں کو رہا کر دیا جبکہ شہریار، علی حیدر پروفیسر اجمل اور ڈاکٹر وارن کی رہائی میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ پاکستان سے اغوا ہونے والوں کے بارے میں اغوا کار ان کی اور اپنی افغانستان میں موجودگی کا تاثر دیتے ہیں۔ اس تاثر کی وجہ افغانستان سے آنے والی کالیں تھیں۔ متعلقہ اداروں نے کچھ جعلی ٹیلی فون ایکسچینجیں پکڑیں تو پتہ چلا یہ لوگ ساری کارروائی یہیں پاکستان میں بیٹھ کر کرتے تھے۔
پولیس بھتہ خوری کیلئے بدنام ہے یہی کام باقاعدہ گروہ بھی کرتے ہیں۔ خوف کے مارے بڑے بڑے تاجر، صنعت کار اور دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ عموماً جان اور مال کے تحفظ کی خاطر خاموشی سے جرائم پیشہ افراد کی ڈیمانڈ پوری کر دیتے ہیں۔ جو لوگ پولیس کو رپورٹ کریں ان کی قسمت کہ اگر اچھا افسر مل جائے وہ تباہی سے محفوظ رہ جاتے ہیں دوسری صورت میں جان اور مال دونوںکا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اسکی مثال گزشتہ ہفتے اچھرہ میں ہونے والا بم دھماکہ ہے۔ پاکستان چوک کے قریب ایک دکان میں دھماکے سے 17 افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ متعدد قریبی دکانوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسی دکان پر دو ماہ قبل بھی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔ دکان کے مالک ولی خان کا کہنا ہے کہ بھتہ نہ دینے پر دکان پر حملہ کیا گیا۔ ولی شاہ کے مطابق ایک ماہ قبل اسے نامعلوم افراد نے فون کر کے 10 لاکھ روپے بھتہ مانگا، اس نے پولیس کے پاس مقدمہ درج کرایا تو بھتہ خوروں نے فون کر کے بھتے کی رقم 20 لاکھ روپے کر دی اور نہ دینے پر قتل اور گھر کو دھماکے سے اُڑانے کی دھمکی دی جس پر پولیس کو آگاہ کیا اور بھتہ خوروں کے نمبر بھی دیئے۔ ایس پی صاحب اس سانحہ پر بھی یہ کہہ کر پردہ ڈالتے نظر آئے کہ واقعہ لین دین کا تنازع لگتا ہے۔
اغوا برائے تاوان اور بھتہ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ملک کے ہر کونے میں موجود شہری خوفزدہ ہیں۔ شہریوں کو اس خوف سے حکومت قوانین پر عمل کر کے نکال سکتی ہے۔ جرائم پیشہ عناصر سے زیادہ خطرناک ان کی پشت پناہی کرنے والے ادارے اور بااثر افراد ہیں۔ بچوں اور خواتین سمیت بہت سے افراد کو بھتہ اور تاوان نہ ملنے پر قتل کر دیا گیا ان کا خون متعلقہ اداروں اور نوٹس نہ لینے والے حکمرانوں کے سر ہے۔ کیا یہ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کے لختِ جگر بھی بے رحم لوگوں کے ہتھے چڑھ جائیں گے۔ حکومت اس قبیح جرم میں سزائے موت پانے والوں کی سزا پر سرِعام عمل کر کے انہیں دوسروں کیلئے عبرت بنا دے توایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...