وطن عزیز میں واقعات جس تیزی سے رونما ہوتے ہیں ہمارے لوگ اسی تیزی سے ا نہیں زیر بحث لاتے اور پھر اسی تیزی سے بھول جاتے ہیں۔آجکل پانامہ لیکس کا اسطرح شور ہے جیسے یہ دھماکہ ہماری تاریخ کا رخ موڑدیگا۔کیا ایسا ہو سکے گا یا یہ بھی خدانخواستہ کسی نئے حادثے کے نیچے دب جائیگا۔بحث طلب ہے۔
پانامہ لیکس عالمی سطح کا ایک سکینڈل ہے جس کے ذریعے بہت سارے ممالک کے لیڈرز اور کاروباری ٹائیکونز کو اپنے ملک کی دولت لوٹ کر آف شور کمپنیوں میں چھپا نے پر بے نقاب کیا گیا ہے۔جن ملکوں نے ان کمپنیوں کا کاروبار بننے اور بڑھنے دیا انہی کی رپورٹوں میں حقیقت تو ہوگی مگر یہ دستاویزات کوئی UNO کی قرارداد نہیں جس پر عمل کروانا عالمی ذمہ داری ہو۔یہ خالصتاً ہر ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ وہ اس پر جس طرح چاہیں ایکشن لیں۔البتہ انہیں عالمی سطح پر تعاون مل سکتا ہے ۔روس نے کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ چین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسکو خود ڈیل کرینگے اور اس پر بحث نہ کی جائے۔ آئس لینڈ میں وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑا ۔ برطانیہ کے وزیراعظم کو اپنی پالیمنٹ کے سامنے نہ صرف اپنے کیس کو پیش کرنا پڑا بلکہ آئندہ اسطرح کے کیسز سے بچنے کیلئے قانون سازی کی بنیاد بھی رکھی گئی ۔انڈیا نے بھی فوراًکمیٹی بٹھادی اور مینڈیٹ دیا کہ دو ہفتوں میں اس پر رپورٹ پیش کی جائے۔ دیگر کئی ملکوں میں بھی ایکشن لیا گیا مگر ہمارے ہاں ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ اس کیلئے ہمیں کیا کرنا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ اسے بھی مکمل سیاسی رنگ دیکر الجھا دیا جائے کیونکہ بیشتر سیاسی پارٹیوں کے عمائدین ان میں ملوث ہیں جن میں سے کچھ کے نام آچکے ہیں اور کچھ کاروائی کے دوران سامنے آجائینگے۔لوٹ مار اور طاقت کا گٹھ جوڑ جتنا ہمارے ملک میں منظم ہے اتنا شائد پانامہ لیکس کو بہت بڑا انکشاف سمجھنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔تاہم اس لیول پر پہلی بار لوٹنے والے طاقتور اور لُٹنے والے کمزور عوام کا آمنا سامنا ہے۔اس طرح کے کیس پر چار طریقوں سے ایکشن ہوسکتا ہے۔
(1)عوام کو اچانک شاک ملا ہو کہ انکے قابل اعتماد لیڈر کسی ایسی بد عنوانی میں ملوث پائے گئے ہوںاور وہ اسی شاک میں آئس لینڈ کی طرح سڑکوں پر آکر اپنے وزیراعظم کو فارغ کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں شاک والی کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارے عوام طاقتوروں کی لوٹ کھسوٹ کو نسل در نسل تسلیم کر چکے ہیں۔کبھی کسی نے اُکسایا تو تھوڑی بہت گریہ زاری کرلی اور بس۔ووٹ پھر انہیں کا۔ہمارے تھڑے پر بیٹھنے والے بھی بڑے مزے سے بتاتے ہیں کہ کس کس کی،کون کون سی پراپرٹی، کہاں کہاں ہے۔ہم ایک کمپرومائزڈسوسائٹی ہیں لہٰذا ہم سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
(2)سیاسی پارٹیاں اپنے نام اور اپنی تاریخ کو بے داغ رکھنے کیلئے اپنے قائدین کو خود مجبور کرتی ہیںکہ وہ اپنے پر لگا الزام کلیئر کروائیں جس طرح کہ برطانیہ میں ہوا ۔اگر برطانوی وزیراعظم اس سے سرخرو ہو کر نکل آتے ہیں تو پارٹی انکے پیچھے کھڑی رہیگی ورنہ لا تعلقی کا اعلان کردیگی۔یہ ہے جمہوریت اور جمہوریت کی بقا۔ ہمارے ہا ں’ ن‘ لیگ کے رہنما میڈیاپرایک تو یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ میاں نواز شریف کا انکے بچوں کے بزنس سے کوئی تعلق نہ ہے اور دوسرا یہ کہ اگر اپوزیشن کے کچھ لوگوں نے شور بندنہ کیا تو وہ ان کے کرتوت بھی ظاہر کردینگے۔میرے خیال میں اگر یہ لوگ نہ بولتے تو میاں صاحب کو زیادہ فائدہ ہوتا۔کوئی بھی کمیٹی یا باڈی بنتی جس کا سامنا حسین نواز کو کرنا ہوتا تو ابتدائی تحقیق فرد یا افراد کے مالی معاملات پر مرکوز رہتی۔اسکے بعد اگر وزیراعظم کیخلاف کچھ آجاتا تو وہ اسکے مطابق ایکشن کے مستحق ہوتے جسے پارٹی سپورٹ نہ کر تے ہوئے اپنی ساکھ بچا لیتی۔
(3)ملک کے مجاز ادارے اپنا اپنا کام شروع کر دیتے تو ملک میں یہ ہیجانی کیفیت پیدا نہ ہوتی ۔ایک عرصے سے میڈیا پر یہ بات زیر بحث تھی کہ ادارے کمزور اور بے اثر کئے جا رہے ہیںجس کا ثبوت آج سامنے ہے۔اس لاش کو اٹھانے کی ذمہ داری ادارے ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے ادارے اپنا کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ نیتّ۔انکی اجزائے ترکیسی ہی کچھ اسطرح کی بن چکی ہے۔وہ ایک ماڈل گرل کو پکڑتے ہیں۔کئی ماہ عدالتوں کے ریمپ پر چلتی ہے۔ اسے پروٹوکول ایساملتا ہے جیسا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو بھی قید کے دوران کبھی نہیں ملا تھا۔اب وہ بیرون ملک بھی جاسکتی ہے۔رقم کس کی تھی ،کہاں گئی؟کوئی نہیں بتا سکتا۔ البتہ یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسے پکڑنے والا انسپکٹر اعجاز زیر زمین آرام کر رہا ہے۔
(4)ایسے موقعے پر اپوزیشن کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ ہماری اپوزیشن پارٹیاں بھی اکٹھی تو ہورہی ہیں مگر بظاہرسب کا اپنا اپناایجنڈا ہے۔دیکھتے ہیں کہ کیا اگلے چند دنوں میں وہ کوئی ایسا لائحہ عمل حکومت کے سامنے رکھ سکتے ہیں جو خالصتاًقومی تطہیر اور مفاد پر مبنی ہو؟ محترم وزیراعظم غالباًآصف زرداری سے ملنے لندن گئے ہیں جن کی آشیر باد کے بدلے ان سے کم از کم ڈاکٹر عاصم کو فارغ کرنے اور دیگر کیسز کو دبانے کی یقین دہانی طلب کی جاسکتی ہے۔اسی طرح دوسری پارٹیوں کے مطالبات بھی آہستہ آہستہ آشکا ر ہو جائینگے۔
عمران خان نے پانامہ لیکس کو قوم کی قسمت کا ایک اہم موڑ گردانتے ہوئے تحریک کا بیڑہ اٹھایا ہے۔یہ خالصتاً عوام کا کیس ہے۔اگر اس کا فوکس کسی شخصیت کی بجائے لوٹی گئی قومی دولت کو واپس قوم کے قبضے میں لا دینے پر رکھا جائے، تو بہت سارے پریشر گروپس، تنظیمیں اور سوشل میڈیا اسکے ساتھ شامل ہو جائینگے۔کسی خاص شخص کو ٹارگٹ کرنے کا مطلب اسکے ہمدردوں سے مخالفت کھڑی کرنا اور اپنی تحریک کو کمزور کرناہوتاہے۔یہی ہماری عوامی نفسیات ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اسے کسطرح ہینڈل کرتے ہیں۔
مستقبل کے متعلق قیاس آرائیوں کا بھی طوفان اٹھا ہوا ہے جس میں حصہ ڈالنا کوئی غیر فطری بات نہیں۔ دوصورتیں ہیں ۔ایک تو یہ کہ کسی طاقتور باڈی کومتعین کیاجائے جس میں آڈیٹرز، قانونی ماہرین وغیرہ شامل ہوں اور وہ معاملات کا ہر پہلو سے تجزیہ کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔اس صورت میں فیصلے تک امن رہ سکتا ہے اور کارروائی میں تقریباً اس سال کے بقیہ مہینے گذر جائینگے۔اس دوران لامحالہ ’ن‘لیگ پر کمزوری کا رجحان غالب رہے گا۔چاہے وہ ان ہاؤس تبدیلی کو بھی لے آئیں جسکا تذکرہ عام ہے۔دوسری صورت موجودہ ضد کی ہے جو اَب شائد کامیاب نہ ہو سکے۔ اس سے ملک میں بدامنی بڑھے گی اور ادارے مزید کمزور ہوتے چلے جائینگے۔یہ صورتحال بھی شائد سال کے آخر تک چل سکے۔اگر اس دوران وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر دیتے ہیں تو بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکے گا۔دونوں صورتوں میں ہم 2017ء تک پہنچ جاتے ہیں جوکہ الیکشن تیاری کا سال ہوگا۔الیکشن کے سال میں حکومتی کارکردگی ہر پارٹی کی چوٹ پر ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمارے اس سال کے الجھے ہوئے معاملات الیکشن کے سال کو"The Year of Frustration" میں بھی بدل سکتے ہیں۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ حکومت کے لگائے گئے بڑے پاور پراجیکٹ بھی اسوقت تک بارآور نہیںہوسکتے جنھیں حکومتی اعتماد اور مزید وعدوں نے سہارا دینا تھا۔ان حالات میں ن لیگ کیلئے اگلا الیکشن انتہائی مشکل ہوگا۔
پاکستانیوں کیلئے پانامہ لیکس کے انکشافات کوئی نئی بات نہیں مگر اسطرح کی حرکات کا سدِ باب بہر صورت کرنا ہے اگر یہ نتیجہ ہمیں کسی صحیح طاقتور کمیٹی اور اداروں کے فعال کرنے سے حاصل ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ پبلک سوموٹو سے اپنی تقدیر بدلنے کی تیاری کریں۔