قدم بڑھائو احسن اقبال

شادش بخیر ایک آپا نثار فاطمہ ہوا کرتی تھیں۔ نارووال کے کسی سرحدی علاقے کی رہنے والی تھیں۔ جماعت اسلامی سے بڑا قلبی تعلق تھا۔ جب ضیاء الحق نے شب خون مارا تو انکے خون نے بھی جوش مارا اور براستہ جماعت اسلامی ضیاء الحق کی نامزد مجلس شوری کی رکن بن گئیں۔ اور سیاسی طور پر ضیاء الحق کی حمایت میں خوب مصروف ہو گئیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو تھا ہی نہیں پرنٹ میڈیا پر تقریباً روزانہ انکے بیانات سیاسی تجزیے اور تبصرے اخبارات کی زینت ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر مٹھایاں تقسیم کرنے کے بعد جب انکی اہمیت میں اضافہ ہوا تو حدود اربعہ کسی وفاقی وزیر کے برابر ہی کر لیا۔ اگرچہ کابینہ کی رکن نہیں تھی۔ آپا نثار فاطمہ کو اللہ نے ایک پیارا سا بیٹا بھی دیا ہوا تھا جو انکے زیر سایہ آمریت کی فیوض و برکات کا قائل ہوا اور آمریت کی گود میں ہی پرورش پائی۔ جوں جوں یہ بچہ جوانی کی منازل طے کرتا رہا توں توں اسکے دماغ کے گوشوں میں ضیاء الحق کے کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا رہا۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے۔ خلوت و جلوت میں اور سیالکوٹ کی سڑکوں پر پرانی سی سوزوکی جیپ چلاتے مرد مومن۔ مرد حق کا ورد کرتا رہتا۔ کیونکہ اسے یہ پختہ یقین تھا کہ ضیاء الحق کو کوئی طاقت نہیں ہٹا سکتی کیونکہ اللہ اسکے ساتھ ہے مگر یہ بھول گیا کہ دوسری طرف اللہ کی مخلوق ہے جسکی گردن اس نے دبوچ رکھی ہے۔ مخلوق خدا کو بیچ چوراہوں کے ٹکٹیاں گاڑ کر کوڑے مارے جاتے۔ مغلیہ عہد کے شاہی قلعے۔ بدنام زمانہ چونا منڈی CIA اور وارث رروڈ کے عقوبت خانوں میں ان کی جوانیاں پگھلا کر انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا گیا۔ کئی ایک پھانسی کے پھندوں میںجھول گئے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں نے خود سوزیاں کر لیں۔ ایم آر ڈی کے وکلاء صحافی اور سیاسی کارکن تو گویا چونٹیاں تھیں جنہیں جب چاہا ضیاء الحق نے مسل ڈالا۔ یہ الگ بات کہ ان کا جذبہ ہمالہ سے بھی بلند تھا لاکھوں سیاسی کارکنوں اور کروڑوں پاکستانیوں کے مستقبل تباہ کر دیئے گئے۔ مگر حیرت ہے کہ آپا نثار فاطمہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ بیٹا جوان ہو چکا تھا اور اسلامی جمعیۃ طلباء کا تڑکا بھی لگ چکا تھا۔ یہ ہونہار بیٹا انجینئرنگ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا تو مکمل طور پر ’’ضیائی‘‘ بن چکا تھا۔ گوجرانوالہ بار کے سابق صدر اور پنجاب بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین فرخ محمود سلہریا صاحب کا ضیاء الحق کے پھوپھی زاد جسٹس میاں جہانگیر سے گہرا تعلق خاطر تھا۔ سلہریا صاحب بتاتے ہیں کہ میاں جہانگیر کے ہمراہ جب وہ ضیاء الحق کے جنازے میں شریک ہوئے تو ایک بڑے جنازے میں صرف دو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک میاں محمد نواز شریف اور دوسری آپا فاطمہ۔ اللہ اپنی مخلوق کی مدد کو آیا اور اسے ضیاء الحق کا جنازہ دیکھنا نصیب ہوا۔ نہ نواز شریف کے اندر سے ضیاء الحق نکل سکا اور نہ ہی آپا نثار فاطمہ کے بیٹے احسن اقبال کے۔ وقت اور ’’ضیائی فکر‘‘ آگے بڑھتا رہا۔ اگرچہ دونوں نے چند سال بعد اسلام آباد میں واقع ’’جبڑا چوک‘‘ پر ضیاء الحق کی قبر پر جانا ترک کر دیا ۔ نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم بنے تو احسن اقبال ان کی کابینہ کے ممبر بنے اور پروگرام 2010ء کے کوآرڈی نیٹر کا قلمدان اسکے سپرد کر دیا۔ احسن اقبال کا انتخاب نواز شریف کیلئے بڑا منحوس ثابت ہوا۔ 12اکتوبر 1999ء کو پھر ایک فوجی آمر آ گیا وردی وہی تھی مگر اندر جنرل ضیاء الحق کی بجائے جنرل پرویز مشرف تھا۔ جب نواز شریف اٹک قلعہ میں سلاخوں کے پیچھے پہنچے تو تب معلوم ہوا کہ آمریت کیس بلا کا نام ہے۔ نواز شریف کو خادم حرمین شریفین نے بچا بھی لیا اور بلا بھی لیا۔ رہے احسن اقبال تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان بن کر کبھی لندن اور کبھی نیویارک کبھی جدہ تو کبھی دبئی میں اپنا وقت گزارتے رہے۔ وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی اور نواز شریف NROکا فائدہ اٹھا کر پاکستان آئے اور تیسری بار وزیراعظم بن گئے احسن اقبال اب کی بار بھی انکے وزیر برائے اقتصادی منصوبہ بندی بنے۔ نواز شریف کی حکومت چلنا شروع ہوئی۔احسن اقبال نے ابھی وزارت کے کاغذات و فائلیں درست کرنا شروع کی تھیں کہ نواز شریف کو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا شوق چرایا۔ جھٹ مقدمہ قائم کیا گیا اور انہیں عدالتوں میں گھسیٹنے کا پروگرام بن گیا۔ کچھ اہل نظر ساتھیوں نے روکا بھی کہ اس سے منزل کھوٹی ہو گی اور ہم ایک غیر اہم مسئلہ میں پھنس جائینگے اور دیگر ریاستی امور چلانے کیلئے مشکلات پیش آئیں گی لہٰذا پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر جانے دینا چاہے مگر اقتدار کی راہداریوں میں خوشامدی وزرا نے کہا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں کیونکہ صاحب ایسا چاہتے ہیں۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور خواجے کے گواہ ’’ڈڈوئوں‘‘ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ مگر آپا نثار فاطمہ کے آمریت میں پلے بڑھے بیٹے احسن اقبال نے تو سب کو پہلے حیران اور پھر پریشان کر دیا اور کسی غیرت مند سیاستدان کی طرح کہا کہ اگر پرویز مشرف پاکستان سے باہر گئے تو وہ نہ صرف وزارت بلکہ سیاست چھوڑ دینگے اور یہ سب کچھ بدقسمتی سے انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کے چینلز پر کہا جس کی تردید دستاویزی طور پر ممکن ہی نہیں۔ اگرچہ پاکستان میں نئی روائت ہو گی مگر کہیں سے تو ابتدا ہونی چاہئے۔ ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی بات کا پاس رکھیں گے اور سیاسی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو جائینگے۔ مگر یقین نہیں آتا کہ وہ استعفیٰ دینگے بلکہ ایک بات کا یقین البتہ ہے کہ وہ استعفیٰ کا مطالبہ کرنیوالوں کیخلاف ڈٹ جائینگے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ اگر احسن اقبال مستعفی ہو جائیں تو پاکستان کے دوسرے ذوالفقار علی بھٹو بن سکتے ہیں۔ احسن صاحب شیر بنیں شیر اور ہاں ایک مشورہ دینا تو بھول ہی گیا کہ… قدم بڑھائو احسن اقبال ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...