آپ کسی شخص سے حکو مت کے کسی اچھے کا م کی تعر یف کر یں تو جوا ب ملے گا حکو مت تو ٹھیک کا م کر رہی ہے مگر اس کے سر بر اہ تجارت کے پیشے سے وا بسطہ رہے ہیں اور ان کا خاندان اب بھی تجا رت کر رہا ہے ۔ملک کاوزیر اعظم تجا رت سے وابسطہ نہ ہویہ سوچ رکھنے والے حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وزیر اعظم کا تجا رت سے کسی قسم کا تعلق ان کی کارکردگی پراثراندازہوتا ہے ۔ یہ پروپیگنڈا میاں نواز شریف کے مخا لفوں جن میں جنا ب عمران خان صاحب پیش پیش ہیں کی طر ف سے پھیلا یا گیا ہے ۔تجا رت سے تعلق ہو نا کسی بھی وزیر اعظم کی کمزوری نہیں ہو تی ۔تجا رت ایک مقد س پیشہ ہے اس پیشے میںایما ندا ر او ر بے ایمان لو گ مو جو د ہیں ۔بے ایما ن لو گ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتے ہو ں وہ ملک کے وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں ۔پا کستان کے ایک وزیر اعظم سر فیر وز خان نون تجا رت کے پیشے سے منسلک رہے تھے ان کا پو را خاندان اس پیشے سے منسلک تھا ان کے دو ر کا ایک واقہ پیش خد مت ہے ۔کراچی کے لئے بسیں خر ید نے کے لئے ہمیں بیر ونی امداد ملی تھی حکو مت نے بسوں کی خر ید کے لئے ٹینڈر طلب کئے تھے ۔یہ ٹینڈر وزیر اعظم کو منظو ری کے لئے پیش کئے گئے ۔وزیر اعظم نے ایک فا ئل پر سر خ رنگ کا دائرہ لگا دیا اور فر ما یا کہ یہ ٹینڈر قا بل غو ر نہیں اس لئے کہ جس کمپنی نے یہ ٹینڈر دئیے ہیں اس کا ایک ڈائریکٹر میرا بیٹا ہے ۔سر فیر وز خان نو ن کی اما نت تھی جس کی وجہ سے موصوف نے فیصلہ دیا تھا ۔تاجر ہونا بذا ت خود کو ئی عیب نہیں بشر طیکہ وزیر اعظم کی ایما ندا ری مشکو ک نہ ہو ۔صرف تا جر ہو نا وزیر اعظم ہو نے کے لئے نا اہلی نہیں ۔تا جر اپنے پیشے کی ادائیگی کے دوران مختلف شعبہ ہا ئے زند گی کے اہم لو گوں سے لین دین کر تا ہے مردم شنا سی اس کے پیشہ ورانہ افعال کا لا زمی جز و ہو تی ہے اور یہ صلاحیت سیا ست اور حکو مت سے متعلق کا موں میں نہایت اہم اور ضروری ہو تی ہے ۔ تجارت سے اہلیت پیدا ہو تی ہے نہ کہ نا اہلی ۔دو سرا مفر وضہ یہ ہے کہ تمام سیا ستدان بے ایما ن اور کرپٹ ہو تے ہیں خصو صا وہ سیا ست دان جو اقتدار میں ہیں ۔اس مفروضے کو پھیلا نے میں کر پٹ سیاست دانوں کا ہا تھ ہے ۔جو عوام کی سو چ کو اس مفروضے سے مفلو ج کر دیتے ہیں اور اپنی کر پشن پر تنقید کر نے والوں کا اپنی بد دیانتی اور مکا ری سے منہ بند کر دیتے ہیں اگر سب حکمران کر پٹ ہیں تو کرپشن قا بل قبول فعل بن جا تا ہے ایک گر وہ کا فعل نا قا بل قبو ل نہیں رہتا ۔یہ مفروضہ فکری اور عملی سو چ کے خلا ف ہے ۔ہر شخص دوسرے سے مختلف سو چ اور کر داررکھتا ہے ۔سیا ست دانوں کو بے ایمان کہنا فیشن بن چکا ہے ۔ راقم کے ایک دوست بڑے قا نون دان ہیں ۔مو جو دہ حکو مت کو تا ریخ کا بد ترین کر پشن کر نے والا گر وہ گر دانتے ہیں ۔راقم نے تنگ آکر ایک روز مو صوف سے عرض کی کہ جنا ب حکو مت کی کر پشن کا ایک کیس مجھے تیا ر کر دیں تا کہ میں عدالت عالیہ میں درج کروادوںاور کر پشن کے خاتمے کے عمل میں اپنا تھوڑا سا حصہ ڈال دوں ۔بحثیت پیشہ ور وکیل آپ فر ما ئیں اس کی کتنی فیس لیں گے جنا ب کو پیش کردی جا ئے گی ۔وکیل صاحب خامو ش رہے ۔میرے لئے مقد مہ تیا ر کر نے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ ما ضی کے سیا ست دانوں کی اکثر یت ایما ندا ر تھی ۔قا ئد اعظم ،لیاقت علی خان ،حسین شہید سہروردی ،مو لا نا تمیز الد ین ،مو لا نا فضل الحق ،سر دار عبدالر ب نشتر ،خان عبدلقیوم خاں ،سر فیر وز خان نو ن ایک مو تیوں کی لڑی ہے کسی سیا ست دان کے خلا ف کرپشن کے الزما ت نہیں ۔اس دو ر میں حکو مت کا دائرہ اختیا ر محدود تھا کرپشن کے مو قع بھی محدود تھے ۔ بھٹو مرحوم کی سو شلزم نے عوام کے ادا رے بنک ،انشو رنش کمپنیاں ،کارخانے اور دیگر کاروبا ری ادارے قومیا ئی کئے جا نے کا غلط تصو ردیکر حقیقت میں چھین لئے گئے ۔ہر شے گورنمنٹ کی اور گورنمنٹ پارٹی کی ۔ پارٹی کا چیئر مین میں اس لئے ہرشے میری یہ ایک بہت بڑا دھو کہ تھا ۔اپنی ہی قوم کی ملکیت کے ادا رے اپنے عوام سے چھین کر اپنے منظور نظر لو گوں کوبانٹ دینا ایک بڑا ظلم تھا جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔پی آئی اے ،سٹیل ملز ،واپڈا کی تقسیم کا ر کمپنیاں اور دیگر حکومت کی تحو یل میں چلنے والے ادا رے آج بھی قومی دو لت کا بڑا حصہ (چھ سو ارب روپے سے زائد) خسارہ اٹھا رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت کا یہ منشو ر ہے کہ کو ئی کا رو با ری ادا رہ حکو مت کی تحو یل میں نہیں رہے گا نہ معلو م کیو ں پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ان سفید ہاتھیوں کو کیوں چا رہ ڈالا جا رہا ہے یہ رقم تعلیم صحت اور دیگر فلاحی اداروں پر خر چ ہو نی چا ہیے ۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی اس معا ملے میں خا مو ش ہے کیو ں ؟ کیا پی ٹی آئی سو شلزم کی فسطایت کی حا می ہے ؟ یہ ادارے کرپشن کی نر سری ہیں ان کی نج کا ری کر پشن کے خا تمے میں بڑی مدد گا ر ہو گی اقربا پر وری اور نا اہلی کم ہو گی ۔مہذ ب ملکو ں میں DEFAMATION ہتک عزت کا قا نون بہت مضبو ط ہے۔ اگر کو ئی شخص کسی دو سرے کے با رے میں غلط بیان دے دیتا ہے تو متاثر ہ شخص فو ری طو ر پر اپنے وکیل سے معا فی ما نگنے اور اپنے الفاظ وا پس لینے کا نو ٹس بھجوا دیتا ہے اگر تسلی بخش جو اب مو صو ل نہیں ہو تا تو عدالت میں ہر جا نے کا دعویٰ کر دیا جا تا ہے ۔عدالت میں کیس ثابت ہو جا نے پر مد عی علیہ کو متاثر ہ شخص کو بڑی رقم ازالئہ حیثیت عر فی کے طو ر پر عدالت دلوا تی ہے ۔ایسا بھی ہو تا ہے کہ مقد مے کی سما عت کے دو ران مد عی علیہ مدعی کو عدالت سے با ہر رقم دیکر مقدمہ واپس لینے کا معا ہدہ کر لیتا ہے ۔ہما رے خان صاحب جنا ب عمران خان نے ایین بوتھم بر طا نوی آل راﺅنڈر کر کٹر کے خلا ف مقدمہ کیا تھا اور بعد میں مدعی علیہ سے Out Of Court معا ملہ کر لیا تھا ۔ ہمارے ہاں کو ئی شخص میڈیا پر اور پریس میں بھی اپنے اوپر جھو ٹا الزام لگا ئے جا نے کے خلاف مقدمہ درج نہیں کرواتا ۔کیو نکہ عدالت میں پیچیدہ قوانین اور ضابطوں کی وجہ سے مد عی کو انصا ف ملنے کی امید نہیںہو تی ۔چیف جسٹس جناب افتخا ر چودھری نے عمران خان پر اس نوعیت کا مقدمہ درج کر وایا تھا ۔جس کا نتیجہ آج تک نا معلوم ہے ۔ یہی حال وزیر اعلی پنجا ب میاں شہباز شر یف نے جو مقدمہ عمران خان صاحب پر کیا ہوا ہے اس کا کو ئی نتیجہ سا منے نہیں آیا ۔تیسرا مقدمہ چیف الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلا ف کیا ہوا ہے اس کا بھی کو ئی نتیجہ سا منے نہیں آیا ۔چیف جسٹس پنجا ب جنا ب سید منصور علی شاہ سے درخوا ست ہے کہ ان معا ملا ت کے با رے میں سو مو ٹو ایکشن لیں ۔