اورنج ٹرین : ورثے کا تحفط ہماری ذمہ داری ترقی بھی عزیز ہے : سپریم کورٹ

Apr 15, 2017

اسلام آباد (آن لائن + صباح نیوز)سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹروٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تاریخی ورثہ کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جوتاریخی ورثہ بچ گیا اس کا تحفظ ضروری ہے۔ جمعہ کو کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید ، جسٹس مقبول باقر ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجربنچ نے کی۔ دوران سماعت سول سوسائٹی کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کسی ادارے کی تاریخی ورثہ کے تحفظ کی ذمہ داری نہیں لگائی گئی۔ نیسپاک کا بطور کنسلٹنٹ تقرر بھی شفاف نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کے سامنے منصوبے کی شفافیت کا مقدمہ نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت کے سامنے مقدمہ تاریخی ورثہ اور ٹرین کی تھرتھراہٹ کا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا منصوبہ کی شفافیت پر اعتراض ہے تو الگ مقدمہ دائر کریں۔ اس پر اظہر صدیق نے کہا کہ نیسپاک کے بورڈ ممبران جانبدار ہیں۔ اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا آپ نیسپاک کی ساکھ پر اٹیک کر رہے ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ مقدمہ میں معاونت صفر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جن نکات پر دلائل ہو چکے ہیںان سے ہٹ کر دلائل دیں اس پر وکیل اظہر صدیق نے کہا چوبرجی کے سامنے حافظ سعید کا مدرسہ ہے،ٹریک کو حافظ سعید کے مدرسہ کے طرف نہیں موڑا گیا، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا حافظ سعید کا مدرسہ بھی تاریخی ورثہ ہے، اس پر اظہر صدیق نے کہا کہ منصوبے کا ماحولیات پر اثر پڑے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں کہ ماحولیات کا تاریخی ورثہ پر کیا اثر ہوگا ، اس پر اظہر صدیق نے کہا کہ ماحولیات در اصل تاریخی ورثہ نہیں ہے جبکہ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے چھوٹے سے مالدیپ کو دیکھیں ایک سال میں دس لاکھ سیاح آئے۔ لاہور کے تاریخی مقامات کو دیکھنے صرف چند سو لوگ آئے ،چند سو لوگ سیاحت نہیں تفریح کے لیے آئے، جبکہ نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ بارہ ہفتے نگرانی میں کوئی نقصان ہوا تو ٹرین روک دی جائے گی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تاریخی ورثہ کا تحفظ ہماری بھی ذمہ داری ہے،1973 میں طالب علم کی حیثیت سے شالامار باغ کا وزٹ کیا،دوسری تاریخی عمارتوں کو بھی دیکھا،1973 میں شالا مار باغ کے ارگرد کوئی تعمیرات نہیں تھی، آج شالامار باغ کے اردگرد تعمیرات کے انبار ہیں،کیا باغ کے پیچھے،دائیں،بائیں تعمیرات سے خوبصورتی متاثر نہیں ہوئی۔، جسٹس مقبول باقر نے کہا جوتاریخی ورثہ بچ گیا اس کا تحفظ ضروری ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ تاریخی ورثہ پر کو ئی سمجھوتہ نہیں،لاہور شہر ہمارا بھی ہے،لاہور شہر کو ترقی بھی عزیز ہے ،تاریخی ورثہ کا نقصان بھی برداشت نہیں،ہمیں قابل قبول حل بتایا جائے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ 200فٹ حدود میں تمام عمارات پر بلڈوزر اور ٹینک چڑھا دیں،سویت یونین نے سب کچھ بلڈوز کردیا تھا ¾کیا بادشاہی مسجد کے قریب تمام عمارات گرا دی جائیں،عدالت میں عملی بات کریں۔عدالت نے لاہورڈویلپمنٹ اتھارٹی، نیسپاک اور پنجاب حکومت کے وکلاءکوپیرسے جواب الجواب دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ

مزیدخبریں