سوشل میڈیا پر ہمارے کئی جید دانشور ان دنوں یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ پاکستان کی بقاء اور خوش حالی کے لئے صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی نظام۔ فرض کیا بالآخر یہ طے ہوبھی جائے کہ پارلیمانی نظام قطعاََ بے سود ہے جب بھی صدارتی نظام کو لاگو کرنے کے لئے ایک طویل آئینی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اس راستے پر پہلاقدم رکھنے کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس سفر پر روانگی سے قبل میسر وقت کس طرح گزارا جائے۔
اس کالم میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے تھک چکا ہوں۔ ہمارے وزیر خزانہ کئی مہینے تک مزاحمت دکھانے کے باوجود بالآخر IMFسے رجوع کرنے کو مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے وہ واشنگٹن میں تھے۔ ورلڈ بینک اور IMFکے لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوگئیں۔ بیل آئوٹ پیکیج کی امید ان ملاقاتوں کے بعد جگائی گئی ہے۔ یہ مگر واضح نہیں ہوپارہا کہ مطلوبہ رقم کی پہلی قسط جاری کرنے سے قبل IMFکے تقاضے کیا ہیں۔معاشی امور کے بارے میں قطعی نابلد مجھ جیسے صارفین بھی اب تک ہوئے تجربات کی بدولت خوب جان چکے ہیں کہ IMFکی پہلی قسط آنے کے ساتھ ہی ہمارے گھروں میں خرچ ہوئی بجلی اور سوئی گیس کے بلوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ والوں نے البتہ کمال یہ دکھایا ہے کہ مطلوبہ رقم کی پہلی قسط آنے سے قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔Slabsکے گورکھ دھندے کو سفاکی سے استعمال کرتے ہوئے گزشتہ تین مہینوں میں سوئی گیس کے بلوں نے اچھے خاصے مطمئن نظر آتے افراد کو بھی بلبلانے پر مجبور کردیا۔معاملہ نظر بظاہر اب ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قدر طے کرنے پر اٹکاہوا ہے۔ IMFکا اصرار ہے کہ ’’بازار‘‘ طلب ورسد کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ڈالر کی قدر طے کرے۔ حکومت ہماری بہت جائز وجوہات کی بنا پر ’’استحکام‘‘ کی خاطر اپنے لئے اس ضمن میں ’’بازار‘‘ پر کنٹرول کی گنجائش برقرار رکھنے پر بضد ہے۔ حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لئے میری دانست میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت باقی نہیں رہا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ صدارتی نظام کے فیوض وبرکات کو ایمانداری سے تسلیم کرنے کے باوجود میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار روزمرہّ زندگی کی پریشانیوں سے اس اعتراف کی بدولت نجات کیسے پائیں گے۔ جولائی 2019ء سے ہماری قوتِ خرید کم تر ہونا شروع ہوجائے گی۔ جو کماتے ہیں اس میں گزارہ ناممکن ہوجائے گا۔معاشی میدان سے ہٹ کر امید یہ بھی تھی کہ زلمے خلیل زاد کی آنیاں جانیاں افغانستان کو بالآخر استحکام وامن وسکون کی جانب لے جارہی ہیں۔ طالبان نے مگر موسم بہار کا آغاز ہوتے ہی مسلح مزاحمت کو شدید تر بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ زلمے خلیل زاد اب ٹویٹ لکھ کر پاکستان سے بظاہر ’’درخواست‘‘ کررہا ہے کہ طالبان کے اس فیصلے کی ’’مذمت‘‘ کی جائے۔ ’’مذمت‘‘ کا مطالبہ میری ناقص رائے میں Do Moreہی کی ایک اور صورت ہے۔ سفارتی زبان میں پاکستان کو بہت ملفوف انداز میں متنبہ کیا جارہا ہے کہ اگر طالبان نے اپنے اعلان پر شدت سے عمل کیا تو پاکستان کو ’’عدم تعاون‘‘ کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔ ہم پر الزام دھرنے سے قبل ایک لمحے کو بھی یہ سوچا نہیں جائے گا کہ ٹرمپ کا بااختیار نمائندہ اور اپنے تئیں دورِ حاضر کا ڈاکٹر کسنجر بنازلمے خلیل زاد جن باتوں پر مُلابرادر جیسے طاقت ور نمائندہ طالبان کو قائل نہ کرپایا انہیں بروئے کار لانے کے لئے پاکستان ’’مزید‘‘ کیا کرے۔افغانستان میں موسم بہار اپنے جوبن پر ہے۔ طالبان نے Spring Offensiveکے نام پر حملے بھی شروع کردئیے ہیں۔ٹھوس معلومات نہ ہوتے ہوئے بھی میرے وہمی ذہن کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ایک طویل وقفے کے بعد ہزار گنجی میں ہوا دہشت گرد حملہ افغانستان کے ’’موسم بہار‘‘ میں ابھرے نئے قضیوں سے جڑا ہوا ہے۔ صدارتی نظام کے فیوض وبرکات کا ایمانداری سے اعتراف فی الوقت ان قضیوں سے ہماری جند چھڑا نہیں سکتا۔دریں اثناء ہفتے کی صبح ایم کیو ایم (پاکستان) کے کوٹے سے وفاقی کابینہ میں بیٹھے خالد مقبول صدیقی نے کراچی میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کردی۔نام نہاد ’’شہری‘‘ بمقابلہ’’دیہی‘‘ سندھ کا سوال اس پریس کانفرنس میں بہت شدت سے اٹھا۔ اس سوال کے لئے مزید Momentumپیدا کرنے کے لئے 27اپریل کو ایم کیو ایم (پاکستان) نے کراچی میں جلسہ عام کا اعلان کردیا ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) ہی کے کوٹے سے وفاقی کابینہ میں موجود ایک اور وزیر نے گزشتہ ہفتے آئین کے آرٹیکل 149کا حوالہ دیا تھا۔ ایم کیو ایم اس آرٹیکل کے اطلاق کے لئے اب وزیر اعظم کو بہت شدت سے اُکسائے گی۔اپنے تیار کردہ پہلے بجٹ کو قومی اسمبلی سے منظور کروانے کے لئے اسد عمر ایم کیو ایم (پاکستان) کے مطالبے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ تحریک انصاف نے ویسے بھی جولائی 2018ء کے انتخابات کے ذریعے خود کو ’’شہری‘‘ سندھ کا اہم ترین Stakeholderثابت کیا ہے۔ اس شہر سے تحریک انصا ف کے دو وزراء -علی زیدی اور فیصل واوڈا- ٹی وی سکرینوں پر بلند آہنگ انداز میں موجود ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے نفرت ان کی بھی بہت شدید ہے۔ ’’شہری‘‘ سندھ سے ہوئی ’’زیادتیوں‘‘ کے خلاف آواز اٹھانا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ یہ سوچ خام خیالی ہوگی کہ ’’دیہی‘‘ سندھ سے ان آوازوں کا جواب نہیں آئے گا۔’’جواب‘‘ آنا شروع ہوا تو ہم بہت تیزی سے 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں ابھری تفریق کی طرف لوٹنا شروع ہوسکتے ہیں۔ اس تفریق نے تین دہائیوں تک جو غارت گری مچائی اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہر فریق سے ہاتھ باندھ کر فقط التجاہی کی جاسکتی ہے کہ فی الوقت ہماری معاشی مشکلات کا حل ڈھونڈنے پر توجہ دیں۔ سیاسی Show Downsسے اجتناب برتیں۔