حکومت نے لاک ڈاؤن میں تیس اپریل تک توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ حکومت نے کچھ صنعتوں کو کھولنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ بہتر یہی تھا کہ ابھی مکمل لاک ڈاؤن رکھا جاتا کیونکہ آنے والے دنوں میں اس وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات زیادہ ہیں۔ ایک طرف بھوک سے موت نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف کرونا زندگیاں نگل رہا ہے۔ اس صورت حال میں حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام کو ہر طریقے سے بچانے کے لیے کام کرے۔ انسانی زندگی انمول ہے۔ کوئی معیشت کبھی انسانی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتی۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اتفاق رائے کی کمی ہے۔ گذشتہ روز وزرائ کی تاجروں سے ملاقات کی خبریں ٹیلی ویڑن پر نشر ہو رہی تھیں ایک طرف وفاق جب لاک ڈاؤن بڑھانے کا اعلان کر رہا ہے کئی روز قبل صوبائی حکومت لاک ڈاؤن میں اضافے کی درخواست وفاق کو بھیج چکی ہے تو پھر ان حالات میں تاجروں سے ملاقات کا مقصد کیا تھا۔ ایسے فیصلوں سے ہی اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ صوبائی وزراء کو ہر لمحہ انجمن تاجران اور صوبے کی دیگر اہم تنظیموں کے تمام دھڑوں سے رابطے اور ملاقاتیں رکھنی چاہئیں۔ یہ سب پاکستانی ہیں اور کرونا کے دنوں میں لاک ڈاؤن کے بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں انہیں اہم فیصلوں سے قبل اعتماد میں لیں یہ حکومت سے تعاون کرتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں پھر ان سے بالا بالا فیصلے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تاجروں، صنعتکاروں اور دیگر شعبوں میں مختلف تنظیموں کے عہدیداران کو ان کا جائز مقام دیں تاکہ اعتماد کی فضا قائم ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس شعبے میں ناکام نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومتوں میں تقسیم ہے، وفاق کسی کو اعتماد میں نہیں لیتا یہ بداعتمادی اور تقسیم پھر تمام شعبوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ حکومت نے ناصرف مختلف شعبوں کو اعتماد میں نہیں لیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کے پیش نظر مذہبی حلقوں سے بھی بامعنی و بامقصد مذاکرات نہیں ہو سکے یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں مذہبی اجتماعات کے حوالے سے بھی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں اور ان ناکامیوں کا نقصان قیمتی انسانی جانوں کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ کرونا سے لڑنا لڑنا کی رٹ لگانے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لڑنے کے بجائے بچنے کی حکمت عملی تیار کریں۔ لڑائی کے لیے اور کئی محاذ ہیں یہاں بچنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کرونا سے بچنے کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ ہم ڈرنا نہیں لڑنا ہے کے فلسفے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ہم ابھی تک کرونا کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ عوامی سطح پر تو لاک ڈاؤن اور احتیاطی تدابیر پر عمل مذاق ہی بنا ہوا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کراچی اور لاہور ووہان کا منظر پیش کریں لیکن یاد رکھیں کہ چودہ اپریل سے چودہ مئی تک پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ کے خطرات زیادہ ہیں۔ کراچی کی ایک باخبر اور ذمہ دار شخصیت نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ صرف کراچی میں تیس اپریل تک صرف کراچی میں کرونا کے دس ہزار مریض ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ صورتحال بنتی ہے تو نقصان کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ باوجود تمام حقائق اور رپورٹس کے حکومت نے تعمیراتی صنعت کے ساتھ کیمیکلز مینوفیکچرنگ پلانٹس، ای کامرس، ایکسپورٹس اور لوکل سافٹ وئیر ڈیولپمنٹ پروگرامنگ، پیپر، سیمنٹ، فرٹیلائزرز، مائنز، منرلز، لانڈری ، ڈرائی کلیننگ، پودوں کی نرسری، زراعت کی مشینری اور آلات بنانے والی انڈسٹری، شیشہ انڈسٹری، جانوروں کے اسپتال، ایکسپورٹس انڈسٹری بھی کھولنے کا اعلان کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ حکومت لوگوں کو جمع ہونے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ کرونا کے دنوں میں لوگوں کے جمع ہونے کا مطلب وائرس کے پھیلاؤ کو کھلی دعوت ہے۔ ہم یورپی ممالک کی طرح اتنے منظم، مہذب اور باعمل نہیں ہیں کہ مختلف شعبوں میں کام شروع ہونے کے بعد احتیاطی تدابیر پر عمل کر سکیں۔ ہم تو لاک ڈاؤن میں بھی احتیاط سے کام نہیں لے رہے آزادی سے گھومیں پھریں گے تو جو تھوڑا بہت خیال رکھتے تھے وہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ پاکستانیوں کو وائرس اور بھوک سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس کڑے وقت میں سیاست دانوں کی الزام تراشیاں، سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور بھی زیادہ تکلیف کا باعث ہیں۔ اس معاملے میں وفاقی وزرائ اور مشیران کو آگ پر تیل کے بجائے آگ بھجانے اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کرونا سے بچاؤ کے لیے عملی اقدامات اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ سخت فیصلوں کے لیے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں۔ چار درجن سے زائد وفاقی وزراء اور مشیران کو متحرک کریں اور عوامی خدمت کے اصل کام پر لگائیں۔ اس سے زیادہ مشکل وقت لوگوں نے نہیں دیکھا یہ وقت ثابت کرے گا کہ کس سیاست دان اور حکمران کو حقیقی معنوں میں عوام کا درد ہے۔
کرونا سے بچنا ہے اور کرکٹ کو بورڈ کی موجودہ انتظامیہ سے بچانا ہے۔ جب سے احسان مانی آئے ہیں کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی۔ کبھی نشریاتی اداروں کے ساتھ تنازع میں سیٹلمنٹ کی خبریں ہیں تو کبھی گورننگ بورڈ میں بغاوت نظر آتی ہے تو کبھی محکمانہ کرکٹ کا خاتمہ کر کے ملک بھر میں درجنوں محکموں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کرکٹرز کے معاشی قتل کی اندوہناک خبر سننے کو ملتی ہے۔
ایسے ملک میں جہاں ماہانہ تنخواہ ہزاروں میں قسمت والوں کو ملتی ہے وہاں کرکٹ بورڈ کے چند افسران کی کل تنخواہ ایک کروڑ سے زائد بن جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک جو کام چند افراد کم معاوضے پر کر رہے تھے اب وہ کام بھی سالانہ کروڑوں میں کیا جا رہا ہے۔ کچھ خبریں لانے والے بتاتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے سابق سی او او سبحان احمد نے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو پی ایس ایل یا کچھ اور سوشل میڈٰیا کے اختیارات دینے سے انکار کیا تو انہوں نے احسان مانی کی مدد سے سی او او کی مرضی کے خلاف کام کروا لیا۔ یو ٹیوب سے لگ بھگ دو لاکھ ڈالر کم سٹاف اور اخراجات کے ساتھ پہلے بھی کمائے جارہے تھے لیکن خود ساختہ ماہر انتظامیہ نے اب تنخواہوں کا خرچہ اس حد تک بڑھا لیا ہے کہ کرکٹرز کرکٹ چھوڑ کر بورڈ میں ملازمت کی منصوبہ بندی کرنے لگے ہیں۔ ڈائریکٹر میڈیا نے احسان مانی کو ساتھ ملایا اور اس کے بعد من پسند افراد کو بھرتی کیا کسی کو کری ایٹو کا سربراہ بنا کر پندرہ سولہ لاکھ ماہانہ دیا جا رہا ہے تو کسی کو کنسلٹنسی کی مد میں لاکھوں دیے جا رہے ہیں وہ ڈائریکٹر کمرشل جو فرسٹ کلاس کرکٹ کی سپانسر شپ لانے میں ناکام رہا ہے اسے لاکھوں ماہانہ دیے جا رہے ہیں۔ ان بڑے لوگوں کی بہت ویلیو ہے ویلیو نہیں ہے تو صرف کرکٹر کی نہیں ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے کو ماہانہ پچاس ہزار تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کرکٹرز کی محنت سے تنخواہ لینے والے ماہانہ لاکھوں نہیں کروڑوں میں تنخواہیں وصول فرما رہے ہیں۔ دوسری طرف محکموں کو کرکٹ کھیلنے سے روک کر اور ٹیموں کی تعداد چھ کر کے سینکڑوں کرکٹرز کا راستہ روک دیا ہے۔ موجودہ انتظامیہ ملکی کرکٹ کے لیے کرونا وائرس سے کم نہیں ہے اس سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو ان کے خلاف مزید تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کفایت شعاری کا درس دینے والے وزیراعظم عمران خان کو کرکٹ بورڈ کے ماہانہ اخراجات اور بالخصوص کرکٹرز کے استحصال اور افسران کی من مانیوں کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
کرونا سے بچنا ہے کرکٹ کو بچانا ہے!!!!!
Apr 15, 2020