گذشتہ برس اگست میں حکومت ہند نے کشمیر کی سیاسی اور آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا جو قانون پارلیمنٹ میں منظور کرلیا تھا اْس کی مختلف شِقیں پچھلے سات ماہ سے مرحلہ وار نافذ کی جارہی ہیں۔اس ہفتے بھی ایک اعلامیہ جاری ہوا ہے جس کے مطابق اب کشمیر میں ڈومیسائل (شہریت) کا نیا قانون نافذ ہوگا اور اْس کی رْو سے سرکاری محکموں میں چپڑاسی، خاکروب، نچلی سطح کے کلرک، پولیس کانسٹیبل وغیرہ چوتھے درجے کے عہدوں کو کشمیریوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے جبکہ گیزیٹِڈ عہدوں کے لیے پورے انڈیا سے اْمیدوار نوکریوں کے اہل ہوں گے۔ مبصرین کے نزدیک یہ گویا 70 لاکھ کشمیریوں کو 130 کروڑ لوگوں کے سمندر میں غرق کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے کشمیری بھارت کی ڈومیسائل پالیسی پر چراغ پا ہیں اور ان کا الزام ہے کہ نئی دہلی حکومت جابر حکومتوں کے آزمائے ہتھکنڈے کشمیریوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔واضح رہے کہ نئی دہلی نے حال ہی میں بھارتی شہریوں اور اپنے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے نئے قوانین کا اعلان کیا ہے۔ جس کے مطابق اگر کوئی بھارتی شہری بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پندرہ برس سے رہے رہا ہے تو وہ وہاں کے ڈومیسائل کا حق دار ہو گا۔ اس کے علاوہ جو طالبعلم اس متنازعہ علاقے میں سات برس تک پڑھا ہے اور اس نے دسویں یا بارہویں کلاس کا امتحا ن بھی وہاں دیا ہے تو وہ بھی اس ڈومیسائل کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔نئی دہلی حکومت حالیہ کچھ عرصے سے کشمیر کے حوالے سے متنازعہ فیصلے کر رہی ہے۔ گزشتہ برس نئی دہلی نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، جس پر دنیابھر میں رہنے والے کشمیری مشتعل ہیں جب کہ خود بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی کئی مہینوں سے حالات کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے وہاں پر بھارتی فوج اور پولیس کی بھاری نفری متعین ہے جب کہ علاقہ مکینوں پر کئی طرح کی پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں۔
اب ان نئے قوانین نے کشمیریوں میں بالعموم اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں میں بالخصوص بہت بے چینی پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموںو کشمیر لبریشن فرنٹ کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر توقیر گیلانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھاکہ بھارت وہ ہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے، جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کئے،"اس پالیسی کا مقصد بہت واضح ہے کہ کشمیریوں کو اکثریت سے اقلیت میں تبدل کیا جائے۔ ابغیر کشمیریوں کو لا کر ہمارے علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ ہم اس مسئلے پر خاموش نہیں بیٹھیںگے اور اس نا انصافی کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھائیں گے۔"
تاہم کچھ کشمیری رہنماوں کا کہنا ہے کہ بھارت چاہے جتنے بھی قوانین بنا لے لیکن عملی طور پروہ ان پر عمل درآمد نہیں کرا سکے گا۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردارعتیق احمد نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "نئی دہلی کو ا س بات کا ڈرہے کہ آج یا کل کشمیر کے مسئلے کو حل ہونا ہے۔ کشمیری اسٹیٹس کو کو برداشت نہیں کر سکتے۔اس لئے ڈومیسائل پالیسی کے تحت وہ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو بدلنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں جب بھی کشمیر کا مسئلہ حل کی طرف جائے تو وہ اسے متنازعہ کہہ کر بتائیں کہ دیکھیںکشمیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ تاہم ایسا ممکن نہیں ہو گا۔"ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے فوجی افسران اور سپاہی اپنے کنبوں کو کشمیر میں نہیں لاسکتے،"تو سوال یہ ہے کہ عام بھارتی کیسے اپنی جان کا رسک لے کر اپنے گھر والوں کو کشمیرمیں لائے گا یا وہاں پر پیسہ خرچ کرے گا۔ عملی طور پر یہ ہونا ناممکن ہے۔ تاہم اس فیصلے کامقصد بالکل صاف ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے، جس کو کوئی کشمیری نہیں مانے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر یا مذہب سے ہو۔"
کچھ کشمیری ناقدین مسئلے پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی کو افسوس ناک قرار دیتے ہیں۔برطانیہ کی میڑوپولیٹن یونیورسٹی سے وابستہ کشمیری دانشور ظفر خان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے خاموش ہے تاہم یورپی یونین، برطانوی پارلیمنٹ اور امریکی کانگریس میں کئی ایسے افراد ہیں، جو اس ظلم و زیادتی پر کشمیریوں کاساتھ دے رہے ہیں جبکہ"پاکستانی حکمراں بھی ٹوئیٹس سے بڑھ کر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔
گذشتہ برس اگست میں کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کر کے جب سے اسے انڈین وفاق میں ضم کر لیا گیا ہے اس کے بعد سے وادی میں لاک ڈاون ہے حتیٰ کہ انٹرنیٹ کو جنوری میں محدود پیمانے پر بحال کیا جا سکا۔نئے قانون کے مطابق فوج اور دیگر مرکزی اداروں کے ملازمین اگر پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے یہاں مقیم ہوں تو وہ کشمیر کے مستقل باشندے ہونگے اور اْنہیں یہاں نوکریوں، ووٹ اور جائیداد کی ملکیت کا حق حاصل ہوگا۔نئے قانون کی رْو سے سابق وزرائے اعلیٰ کو بیس سال سے حاصل ملازمین ، ڈرائیور ،سکیورٹی اورسرکاری مہمان کے درجے جیسی مراعات بھی ختم کی گئی ہیں۔
(بی بی سی اردو، ڈی ڈبلیو)