چین سے شروع ہونے والا کرونا وائرس کسی عذاب کی طرح پوری دنیا پر مسلط ہو گیا ہے۔ پوری دنیا کا اقتصادی نظام بُری طرح دباؤ کا شکار ہوا کہ معیشت ہی نہیں معاشرت بھی زیر نگیں آ گئی۔ سرطان، فلو اور چیچک کے بعد اب کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ایک بار پھر گویا مفلوج کرکے رکھ دیاہے۔ چین میں کرونا وائرس کے حملے کے بعد مغربی دنیا نے اسے سنجیدہ نہ لیا اور اپنے شہریوں کو چائنا سے واپس آنے کی تلقین کی۔ انہیں اپنے نظامِ صحت پر بڑا ناز تھا۔ کرونا وائرس سے آلودہ ان شہریوں نے اپنی معاشی و معاشرتی سرگرمیاں جاری رکھیں تو یہ متعدی وائرس بڑی تیزی سے بڑھا۔ اس کا اندازہ تب ہوا جب بڑی تعداد میں اس مرض کے شکار ہسپتال جانے پر مجبور ہوئے لیکن پانی سر سے گزر چکا تھا۔ کرونا نے اپنا شکار شروع کر دیا اور پھر بہترین صحت عامہ کا نظام رکھنے والے اور دنیا کی معیشت پر راج کرنے والے G-8 ممالک بھی بے بس ہو گئے۔ چین کے ہمسایہ ممالک سنگاپور، ملائشیا، جاپان اور روس وغیرہ نے نے اس وائرس کو سنجیدگی سے لیا اور معاشی سرگرمیوں کے باوجود اس وائرس کا زیادہ پھیلاؤ نہ ہونے دیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے۔ چین نے دو طرفہ برادرانہ تعلقات کے تحت پاکستانیوں کو روک لیا۔ 15 جنوری کو وزیر اعظم عمران خان نے بھی کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خدشات کو محسوس کرتے ہوئے نوٹس لیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ انتظامات قطعاً نہ کئے گئے جن کے ذریعے کرونا کو محدود کیا جا سکتا تھا۔
15 جنوری کے بعد جس طرح ایران سے آئے زائرین کا مسئلہ درپیش ہوا اور نہ ہی دیگر ممالک سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کی گئی۔ کرونا کے بڑھنے کے باوجود تبلیغی اجتماع کو نہ روکا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرونا پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں پہلے صوبہ سندھ اور پھر پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے بعد پاکستان میں ڈیزاسٹر سروسز کی انتہائی کمی محسوس کی گئی چنانچہ 2007 میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کا قیام عمل میں آیا لیکن محض نوٹیفیکیشن کے اس اہم ادارہ کو وہ مروجہ سہولیات اور بجٹ ہی مہیا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ ادارہ پاکستان میں زلزلہ، سیلاب اور دیگر آفات کے بچاؤ کیلئے فوری اور قطعی اقدامات کر سکے۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے فیصلے لیتی ہیں جن میں پروفیشنل ازم کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ 15 جنوری کو وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے فوراً بعد این ڈی ایم اے کو ضروری فنڈز مہیا کر دیئے جاتے تاکہ ابتدائی طور پر ٹیسٹنگ کٹس ، ماسک اور دیگر سامان مہیا کر دیا جاتا تاکہ کرونا جیسے موذی وائرس کے خلاف جنگ کرنے کیلئے پیرامیڈیکل فورس کی ٹریننگ مکمل ہو جاتی۔ اس کے ساتھ ہی تفتان یا بائی ایئر آنے والے مسافروں کی فوری ٹسٹنگ کرکے کرونا کے قطعی مریضوں کی نشاندہی کی جاتی اس طرح صرف چند سو کرونا مریض پاکستان کیلئے کسی خطرے کا باعث نہ بنتے۔ بہرحال جو ہوا، سو ہوا۔ اب ایسے صائب فیصلے لینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم نہ صرف اس موذی مرض کا مقابلہ کر سکیں بلکہ پہلے سے دباؤ میں آئی معیشت کو بھی سنبھال سکیں۔ اس کے لئے ہمیں صحت عامہ اور معیشت کی بنیاد کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
دنیا میں کرونا وائرس کے مسلسل حملوں کی وجہ سے نہ صرف ان کی معاشرت تباہ ہو کر رہ گئی ہے بلکہ صنعتی بحران کی وجہ سے بڑی تعداد میں بیروزگاری بھی بڑھی ہے۔الیکٹرانکس و دیگر سامانِ تعیش کی انڈسٹری کے ڈیمانڈ گر جائے گی۔ غذائی بحران کی شدت پوری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں قحط کی صورتحال پیدا کرے گی۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتی پیداوار میں خسارے کی وجہ سے مالیاتی بحران کا شکار ہوں گے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے۔ اگر معمولی سی توجہ دی جائے تو ہم اپنی زرعی معیشت کو سپیڈ دے سکتے ہیں۔
1960ء کی دہائی میں پاکستان کے ادارے انتہائی مضبوط تھے۔ زرعی یونیورسٹیز بڑے منظم انداز میں نت نئے تجربات کر رہی تھیں چنانچہ فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور دیگر میڈیکل کی تعلیم دینے والے ادارے اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کی تعلیم کا معیار بہترین تھا۔ لیکن پھر ان اداروں نے اپنی ساکھ کھو دی۔ اگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد یا کسی بھی زرعی ریسرچ کے ادارے کا رقبہ ملاحظہ کیا جائے تو وہ سنگاپور کے کل زرعی رقبہ سے کہیں زیادہ ہے تو کیا ہمارے لئے شرم کا مقام نہیں ہے کہ ہائی برڈ سیڈ سنگاپور سے درآمد کیا جاتا ہے؟ جب اٹامک سنٹرز کیلئے تمام جدید مصنوعات لوکل انجینئرنگ اداروں میں تیار کی جاتی ہیں تو کیا وینٹی لیٹر اور دیگر آلات جراحی بنانا کوئی مشکل کام ہے؟
بات ہو رہی ہے کہ ان حالات میں کونسے اقدامات کئے جائیں جن کی وجہ سے ہم کرونا وائرس پر قابو پا سکیں بلکہ اپنی معیشت کو بھی سہارا دے سکیں۔ فی الوقت کرونا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے فوری طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کئے گئے ٹسٹوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجہ سے کرونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کا تعین نہیں ہو رہا۔ اس ماہ کے آخر تک 60/70 ہزار کرونا متاثرین کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیںمسلسل ڈبل مائنڈ ڈہیں کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟ صنعتی ادارے، فیکٹریاں اور کاروباری شخصیات پریشانی کے عالم میں رائے دے رہے ہیں۔ فیکٹریوں کی طویل تالہ بندی یقینا قومی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔ اور اگر لاک ڈاؤن ختم کیا گیا تو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا محال ہو جائے گا۔ صوبائی و وفاقی حکومتوںنے خلوص نیت سے اربوں روپے کرونا متاثرین کیلئے مہیا کئے ہیں جو یقینا قابل تحسین ہے لیکن مہیا کردہ یہ فنڈز متوسط اور غریب افراد کی ضرورت سے کہیں کم ہیں۔ نہ لاک ڈاؤن ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فیکٹریوں کو مسلسل بند رکھ کر کروڑوں عوام کو بھوکا رکھا جا سکتا ہے۔ صنعتی پہیہ رواں رکھنے کیلئے حکومت کو جزوی طور پر لاک ڈاؤن کی سہولت اپنانی ہوگی۔
ملک میں کئی صنعتی زون موجود ہیں۔ ان زونوں میں انڈسٹریز کو لوکلی لاک کرکے چالو کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے مجوزہ فیکٹریاں اپنی لیبر کیلئے قیام و طعام کا بندوبست کرنے کی پابند ہوں۔ مارکیٹوں کے سامان کی ترسیل کیلئے Ober / Cream کی سہولت حاصل کرکے مارکیٹنگ نظام کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ تمام شہروں میں بے شمار آبادیاں بڑی منظم ہیں۔ انہیں لاک کرنے کے بعد کمیونٹی پلاننگ کے ذریعے کرونا کے مریضوں کی مکمل نشاندہی ہو سکتی ہے۔ اس طرح یہ آبادیاں اندرونی طور پر بحال کی جا سکتی ہیں اور پھر بعد ازاں پورے شہر اور ملک کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں کرونا وائرس نے جس طرح تباہی مچائی ہے۔ پوری دنیا خطرناک غذائی بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان ایک ایسا ملک ہو سکتا ہے جو اپنی بہترین زرعی پیداوار کے ذریعے دنیا میں اہم مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں ہیلتھ سیکیورٹی، فوڈ سیکیورٹی اور فوڈ سیکیورٹی کیلئے واٹر سیکیورٹی کے اہم قومی ایشوز پر دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔
٭…٭…٭