غیرجانبدار مؤرخین کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں مختلف مواقع پیدا ہوئے جن سے پاکستان کی ریاست فائدہ نہ اُٹھا سکی۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نیشنلزم کا جذبہ رفتہ رفتہ کمزور پڑتا گیا اور ذاتی و گروہی مفادات حاوی ہونے لگے۔ جب روس نے افغانستان میں اپنی افواج داخل کیں تو عالمی طاقتوں کو اپنے قومی مفادات خطرے میں نظر آنے لگے۔ اس وقت امریکہ اور روس دنیا کی دو سپرپاور تھیں۔ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سرد جنگ لڑ رہے تھے۔ روس کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکہ کے لیے ایک تاریخی موقع پیدا ہوگیا اور اس نے اس تاریخی موقع سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اتحادیوں کو روس کے خلاف متحد کردیا۔ پاکستان میں اس وقت ایک آمر جرنیل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ پاکستان کے لئے تاریخی موقع تھا کہ پاکستان اپنے تمام قرضے معاف کرا لیتا مگر اس وقت کے آمر حکمران نے قومی مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کو افغان جہاد کے لیے فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا، جس کا خمیازہ بعد میں پوری قوم کو بھگتنا پڑا اگر پاکستان کے حکمران اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر زور دیتے کہ وہ پاکستان کے قرضے ختم کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے قرضے ختم کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوتے۔ آمر حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کے قومی مفادات کو نظرانداز کیا اور اپنے ذاتی اقتدار کو طول دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔
پاکستان کے لیے قرضے معاف کرانے کا دوسرا تاریخی اور سنہری موقع نائن الیون کے بعد آیا۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان پر ایک آمر جرنیل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی۔ اس نے قومی مفادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ قرار دے دیا اور ایک فون کال پر مشاورت کے بغیر امریکہ کی سات شرائط بھی تسلیم کرلیں۔ اگر وہ اس موقع پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر پاکستان کے قرضے معاف کرنے کے لئے زور دیتے تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ اور دوسرے ممالک پاکستان کے قرضے معاف کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حکمرانوں کے ذاتی گروہی اور اقتدار کی مصلحتوں کی وجہ سے ہم نے یہ تاریخی موقع بھی گنوا دیا۔ پاکستان نے نہ صرف یہ کہ اپنے قرضے معاف نہ کروائے بلکہ پاکستان کو جانی اور مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کو 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور اس کے 80 ہزار سویلین اور فوجی اس جنگ میں شہید ہوئے جو ہرگز پاکستان کی جنگ نہیں بلکہ امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی جنگ تھی۔
کرونا وائرس نے دنیا کے 200 ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔خاص طور پر دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک جو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر تاریخی اور سنہری موقع پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کے حکمران اس موقع کو ضائع نہ جانے دیں اور ترقی یافتہ ملکوں سے قرضے معاف کرائیں۔ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے حالات کا درست تجزیہ کرتے ہوئے عالمی لیڈروں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور مالیاتی اداروں کے سربراہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دنیا کے پسماندہ ممالک کے قرضوں میں ریلیف دینے کے لیے سنجیدہ اور ہمدردانہ غوروفکر کریں۔ انہوں نے درست کہا ہے کہ پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک ہے جو مقروض بھی ہے اور غریب بھی ہے اور کرونا وائرس سے ہونے والے جانی اور مالی اثرات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کھربوں ڈالروں کا بجٹ کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے مختص کر رہے ہیں جبکہ پاکستان اس سلسلے میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہی مختص کر سکا ہے حالانکہ پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگی ممکن نہیں رہی۔ ورلڈ بنک بینک نے ایک بیان میں انتباہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کرونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہوچکے ہیں۔ پاکستان کو 1952ء کے بعد ایک بار پھر منفی قومی گروتھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پوپ نے بھی پسماندہ ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے راقم سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان قرضوں کی معافی اور ری شیڈول کرانے کے سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرنے والا ہے اور قرضوں میں ریلیف کے سلسلے میں اقوام متحدہ اور عالمی سربراہوں کو دلائل اور زمینی حقائق کی بنیاد پر خطوط لکھے جائیں گے اور لابی کی جائے گی۔ امید ہے کہ پاکستان ان دوسرے غریب اور مقروض ممالک کے تعاون سے دنیا کے امیر ممالک پر دباؤ ڈالے گا تاکہ کہ وہ قرضے مؤخر کرنے نے پر رضامند ہو جائیں۔ اس سلسلے میں عالمی حالات سازگار ہیں دنیا کی رائے عامہ بھی غریب اور مقروض ملکوں کے ساتھ ہے۔ امیر ملکوں کو بھی اب یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ دنیا کو جس قسم کی مہلک وبا کا سامنا ہے، دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کے لئے اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ پاکستان کی حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدہ اور سرگرم کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اپیل کرنے، بیان دینے سے یا خطوط لکھنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے خصوصی لابی کرنی پڑے گی اور پاکستان کو جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے تمام امیر ممالک کو خط لکھ کر یہ واضح کرنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں پاکستان قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہے لہٰذا یہ قرضے اس وقت تک موخر کئے جائیں جب تک پاکستان جانی اور مالی نقصانات سے باہر نہیں نکل آتا۔ دنیا کو انسانی تاریخ کی جس نازک ترین صورتحال کا سامنا ہے اس کے پیش نظر یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اک نئے عالمی نظام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کریں گے اور پوری دنیا اور کائنات میں جو عدم توازن قائم ہو چکا ہے اس کو تبدیل کرنے کے لئے مشاورت کریں گے تاکہ انسانوں کے مستقبل کو مزید بحرانوں اور مصائب و مشکلات سے بچایا جا سکے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو موجودہ نازک حالات میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور نیشنلزم کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہے، اُمید ہے کہ وہ قرضوں کو مؤخر کرانے کے لیے موثر حکمت عملی بنا کر قرضے معاف کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں عالمی لیڈروں سے ذاتی رابطے کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔