گزشتہ سال سے اب تک پاکستان میں کرونا متاثرہ افراد کی تعداد چھ لاکھ 67 ہزار 957 ہوگئی۔ 14 ہزار 500افراد انتقال کر گئے جبکہ چھ لاکھ تین ہزار 126 مریض صحت یاب بھی ہوئے۔ کرونا ویکسین کی خریداری کیلئے اب تک حکومتی سطح پر کوئی آرڈر نہیں دیا گیا صرف چین کی طرف سے ملنے والی امدادی ویکسین پر تکیہ کیا گیا جس کی مقدار لاکھوں میں ہے جبکہ آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے۔ اب تک یہ ویکسین 9 لاکھ معمر افراد کو لگائی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں قربتیں ختم ہو چکی ہیں‘ پنجاب میں تبدیلی کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ سندھ حکومت ترقیاتی فنڈز روک کر ویکسین خریدے گی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ فیصلوں میں کس حد تک خودمختار ہوگا۔ پختونخوا میں کرونا مریض 90 ہزار سے بڑھ گئے ہیں۔ رات دن وزیراعظم کے وعدے اور سیاسی و معاشی چیلنج زیربحث ہیں۔ حقیقی اپوزیشن لاپتہ ہے۔ ڈیڑھ سال بعد حکومت آخری سال میں داخل ہو جائیگی اور پانچواں سال الیکشن کا سال کہلاتا ہے۔ اب وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ دیکھنا ہے کہ کارکردگی سنگ بنیاد نقاب کشائی تک رہے گی یا اپنے منشور پر عمل کر پائے گی۔ اسدعمر‘ حفیظ شیخ کے بعد حماداظہر کون سا تیر مارلیں گے۔ وہ مذکورہ دونوں وزراء سے زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔
اپوزیشن کو اپنی اندرونی تقسیم کا چیلنج درپیش ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں لفظی گولہ باری کی جارہی ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی توپیں خاموش ہیں۔ اگر 26 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنا دیا جاتا اور اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ استعمال کیا جاتا تو حکومت کا قائم رہنا بہت مشکل ہو جاتا۔ زرداری اس بار حکومت کی بجائے اپوزیشن کیلئے بھاری ثابت ہوئے۔ پیپلزپارٹی کسی صورت سندھ حکومت سے دستبردار نہیں ہوگی اس لئے پیپلزپارٹی نئے الیکشن کے حق میں نہیں تھی۔ نئے الیکشن کا مطالبہ صرف ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان کا تھا۔ پیپلزپارٹی اب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کریگی۔ پنجاب کے عوام پی ٹی آئی کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آرہے۔ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان اسمبلی بھی پنجاب میں گڈگورننس نہ ہونے سے سرکار کی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ لیکن وزیراعظم کے سامنے کسی کی دال نہیں گل رہی۔ پنجاب میں چودھری سرور‘ چودھری پرویز الٰہی جیسے سیانے موجود ہیں‘ انکی مشاورت سے گورننس کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ منتخب ایوانوں میں مؤثر نمائندگی رکھنے کے باوجود پی ڈی ایم آئندہ ڈھائی سال حکومت کیلئے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان قربتوں اور فاصلوں کی ایک تاریخ ہے۔ جہانگیر ترین کے حامیوں کی سرگرمی سے حکومت سراسیمگی میں اضافہ تو ہوگا‘ ترین بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم اور ترین تعلقات کی خرابی شوگر بحران کے زمانے میں بڑھ گئی۔ پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد تبدیلی کا اگر کوئی امکان باقی ہے تو وہ حکومت کے اندر سے ہی ہے۔ ایم این اے‘ ایم پی اے خود کو بیوروکریسی کے سامنے بے بس پاتے ہیں۔ حکومت کے ہاتھوں ایچ ای سی کی تباہی کا آغاز ہو چکا ہے۔ چوٹی کے ماہرین اس پر قلم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن حاضر سروس وائس چانسلر صاحبان کی مجبوری ہے کہ وہ نوکری بچائیں یا پھر آزادی اظہار و تحریر کی زنجیریں توڑ کر حق گوئی کریں اور نوکری سے جائیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستانی جامعات کا ریموٹ کنٹرول ہے۔ ضلعی سطح پر یونیورسٹیوں کا قیام بڑی بات ہے۔ 1974ء سے ایچ ای سی محض فنڈنگ تک محدود تھا۔ 2010ء کے بعد صوبوں نے بھی اپنی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کئے۔ اب اسکی موجودہ خودمختاری ختم کرکے وزارت تعلیم کے ماتحت کردیا گیا ہے۔
سٹیٹ بنک کو خودمختار کردیا ہے جبکہ ایچ ای سی کی حیثیت تابع فرماں ملازم کی کردی گئی ہے۔ ایسے عالم میں وائس چانسلروں کے اختیارات کا عالم کیا ہوگا۔ سرکاری نجی یونیورسٹیاں ہر سال لاکھوں گریجویٹ‘ پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی سکالر پیدا کررہی ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر ملک میں ہائر ایجوکیشن کہاں تھی۔ ڈسکہ الیکشن میں ن لیگ نے میدان مار لیا۔ کون جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان فاصلے پیدا کررہا ہے۔ اپوزیشن کے سارے تجزیے جہانگیر ترین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جہانگیر ترین اور ان کا گروپ پی ٹی آئی میں ہے۔ انکی اپنی تحریک کا کوئی ذکر نہیں۔ پی ڈی ایم اپنے داخلی معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ پی پی اور اے این پی اسے چھوڑنے کا اعلان کر چکی۔ برسوں پرانے اور طے شدہ معاملات کی کرید پڑتال کی جارہی ہے۔ جی ڈی پی پھیلنے کی بجائے سکڑ رہی ہے۔ 85 روپے قیمت مقرر ہونے کے بعد مارکیٹوں میں چینی غائب ہے۔ رمضان المبارک کا آغاز ہے‘ خوفناک مہنگائی ہے‘ بکرے کا گوشت ساڑھے بارہ سو سے زائد میں فروخت ہو رہا ہے۔ یہی کہا جارہا ہے کہ جلد اچھے دن آئینگے۔ سبزیاں‘ پھل‘ دالیں کیوں اس قدر مہنگے ہیں۔ مارکیٹ کمیٹیاں کیا کررہی ہیں۔ کیا ہول سیل مارکیٹ اور منڈیوں‘ سبزی و فروٹ مارکیٹوں میں قیمتوں کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ جب بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم نہیں ہوگی تو کارخانوں میں تیار ہونیوالی اشیاء کی قیمتیں کیسے کم ہوسکتی ہیں۔ معاشی ٹیم کے بس میں کچھ نہیں‘ تاجروں‘ صنعت کاروں کے سامنے سب بے بس ہیں۔ مہنگائی اور سیاسی انجینئرنگ کا فن اوج کمال پر ہے۔ کوئی سوچ نہیں سکتا تھا عمران اور ترین کے درمیان آخری حد تک قائم ہونیوالے اعتماد کا رشتہ اتنی جلد ٹوٹ جائیگا۔ ترین آٹھ شوگر ملوں کے مالک اس وقت بھی تھے جب انہوں نے تحریک انصاف میں شرکت کی تھی۔ اب وہ بھی پیشیاں بھگتنے والوں کی صف میں شامل ہیں۔ وزیراعظم کو دینے کیلئے 30 ارکان پارلیمنٹ کی دستخط شدہ درخواست تیار ہے۔ ترین کو تھپکی ملی تو کچھ ہو سکتا ہے۔