پاکستان اور بھارت کے مابین 2018میں عمران خا ن کی حکومت کے آغاز میں رابطے شروع ہوئے دونوں جانب سے وفود کا تبادلہ ہوا یہ سارا عمل پس پردہ جاری تھا اور دونوں جانب سے مثبت پیش رفت ہو رہی تھی تا کہ خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کیا جا سکے لیکن بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والے رابطوں اور سلسلوں کو بھی ختم کر دیا۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ خطے میں امن برقرار رہے اور خصوصا بھارت کے ساتھ پیار محبت اور امن کو پروان چڑھایا جائے تا کہ دونوں جانب بسنے والے شہری پر امن ماحول میں اپنی زندگی گزار سکیں لیکن یہ یک طرفہ خواہش بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کبھی پروان نہ چڑھ سکی۔
2019 میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کیا اور یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے کشیدگی کو ہوا دی اور جس کا اثر سرحدوں پر بھی دیکھنے کو ملا اور اس طرح 2018 میں امن عمل کا جو آغاز ہوا تھا 2019 میں وہ رکا رہا۔ لیکن دونوں جانب کے متعلقہ عہدیداروں نے محسوس کیا کہ برے حالات میں بھی اصولی عہدوں پر فائز رہتے ہوئے بات چیت کیلئے ہمیشہ جگہ موجود ہوتی ہے۔ اس لئے کچھ دوست ممالک اور با اثر ممالک کے تعاون سے 2020 میں بیک ڈور ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور پاکستان اور بھارت کی بجائے تیسری جگہ ہونے والی یہ ملاقاتیں مثبت رہیں۔ ان بیک ڈور میٹنگز اور ملاقاتوں نے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے آ پس کے تناؤ کو کم کرنے اور بات چیت کو تیز کرنے میں مدد فراہم کی۔لیکن ان ملاقاتوں میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو مقدم رکھا اور بھارت کو باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں جبر کی وجہ سے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں اور کشمیری کسمپر سی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق جواباً بھارتی عہدیداروں نے کھل کر پاکستانی دلائل سنے اور مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مثبت جواب دیا۔پاکستان نے ان ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی تبدیلی پر بھی بات کی اور نئی دہلی کی جانب سے کشمیر کی ڈیمو گرافی بدلنے کی پالیسی کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جس میں بھارت نے کہا کہ وہ اس حوالے سے سوچ بچار کریں گے اور اس مسئلے پر بات کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ ان ملاقاتوں میں ہندوستانی عہدیداران نے یقین دہانی کرائی کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان حالات نارمل ہو جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے کچھ ایسے اعلانات کر سکتے ہیں جس سے کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے۔
دوسری جانب بھارت نے ان ملاقاتوں میں غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کا مسئلہ اٹھایا تو پاکستان نے دو ٹوک لہجے میں جواب دیا اور ہندوستان کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان غیر ریاستی عناصر یا مسلح عناصر کی کسی قسم کی پشت پناہی نہیں کر رہا بلکہ پاکستان خود ان کی دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور پاکستان دنیا میں امن چاہتا ہے اور وہ ان مسلح عناصر کو کسی صورت بھی پنپنے نہیں دے گااور نہ ہی پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ وہ غیر ریاستی عناصر کو پروان چڑھائے۔یہ ان بیک ڈور مذاکرات کا ثمر ہی تھا کہ ایل او سی پر 2003 میں ہونے والا فائر بندی کا معاہدہ 2021 کے اوائل میں دوبارہ بحال ہوا اور سرحد کے دونوں جانب بسنے والے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔
بعدازاں، ہندوستان نے ویکسین ڈپلومیسی شروع کی اور COVID-19 ویکسین پاکستان بھیجنے پر اتفاق کیا۔بھارت نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ سری لنکا کے دوران انکے جہاز کو ہندوستانی فضائی حدود سے گزرنے کی جازت بھی دی اور اسکے علاوہ یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو تہنیتی خط لکھا اور مبارکباد دی۔اسکے علاوہ بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا جو کہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا لیکن پاکستان کی وزارت تجارت نے بد قسمتی سے اس معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہ کیا لیکن اس سارے معاملے میں نئی دہلی نے خاموشی اختیار کئے رکھی یافی الحال اس معاملے پر بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ان تمام بیک ڈور رابطوں اور تعلقات کی بحالی کے باوجود پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوبارہ امن مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتا ہے لیکن اس کیلئے ہندوستان کو خاص طور پرمقبوضہ جموں و کشمیر میں میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا اور پاکستان مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر کبھی بھی اپنے اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور مقبوضہ کشمیروں کے باسیوں کو راحت پہنچانے کیلئے اپنی ہر ممکن کوشش بھی جاری رکھے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ بھارت کی جانب سے بھی امن عمل کی اس نئی پیش رفت پر مثبت ردعمل دیا جائے گا تا کہ مقبوضہ کشمیر کے باسی جس کرب سے گزر رہے ہیں انہیں اس سے نجات مل سکے اور وہ جبر کے ماحول سے آزاد ہو کر اپنی زندگی گزار سکیں۔