رفتہ رفتہ بچھڑنے والے  

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ یہ دنیا ایک سرائے ہے جہاں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں یہ لامتناہی سلسلہ دنیا کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جو تاقیامت جاری رہے گا۔ دنیا میں ہر سکینڈ میں تقریباً 20 انسان اس دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں لیکن جب ہمارا کوئی خونی رشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جو کسی صورت میں پُر نہیں ہو سکتا اور ہم یادوں کے سہارے اپنے پیاروں کو تصورات کی دنیا میں لانے کی ادھوری سی کوشش کرتے ہیں لیکن قدرت کے فیصلے اٹل ہیں جو ایک بار اس دنیا آب و گل سے سدھار جاتا ہے وہ پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ چار ماہ قبل جب سعودی عرب میں مقیم میرا بھتیجا طاہر محمود اللہ کو پیارا ہو گیا تو ہمیں یوں لگا کہ ہم پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے ہر فرد کی آنکھ اشکبار تھی لیکن جب مرحوم کے جنازہ میں تاحدنگاہ عوام کی شرکت دیکھی تو یاد آیا کہ ہر ذی روح نے ایک دن موت سے ہمکنار ہونا ہے ۔ موت ہو تو ایسی ہو جس پر اپنے تو اپنے ہزاروں غیر بھی آنسو بہا رہے ہیں واقعی ایک مسلمان کی حیات ایسی ہونی چاہئے کہ جیو تو مظلوموں‘ پیاروں اور غریب محلہ داروں کے کام آؤ اور مرو تو ہر فرد تمہاری کمی محسوس کرے۔ 
ابھی ہمارے مرحوم کی اچانک موت سے زخم مندمل نہ ہوئے تھے تو ہمارا بھانجا محمد سعید چٹھہ اچانک وفات پا گیا جس میں فیصل آباد اور بہاولپور سمیت تمام رشتہ داروں نے شرکت کی کیونکہ یہ ایک ایسا ہولناک صدمہ تھا جس نے تمام عزیز و اقارب کو مضطرب کر کے رکھ دیا تھا اس میں میری بیٹی جس کے ریٹائر ہونے میں 5 سال تھے تمام رشتہ داروں کو گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر روئی کسی کے یہ وہم و گمان میں نہ تھا کہ یہ بھی عنقریب ہم سے بچھڑنے والی ہے یہ وہی بیٹی ہے جس کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے جو اپنے ماں باپ بھائیوں اور اپنے  رشتہ داروں کا احترام کرتی ہیں۔ مرحومہ کی والدہ دس سال قبل وفات پا چکی ہیں جس کی وجہ سے وہ میرا بڑا خیال رکھا کرتی تھیں میری جب کبھی طبیعت ناساز ہو جاتی تو تڑپ اٹھتی تھی ۔ 
گزشتہ روز جب میری طبیعت خراب ہوئی تو حسب عادت میں اسے فون کرنے لگا تو فوراً یاد آیا کہ وہ تو فوت ہو چکی ہے بہت دیر تک روتا رہا حالانکہ میرے چار بیٹے ہیں جو میرا بڑا خیال رکھتے ہیں لیکن بیٹی کی محبت اور چاہت دیکھ کر یہ باور کرنا پڑتا ہے کہ بیٹی اللہ کی طرف سے بہت بڑا احسان ہے چند روز قبل  جب میں مرحومہ کے سسرالی گاؤں میں فاتحہ خوانی میں تھا تو وہاں موجود اجنبی لوگوں نے مجھ سے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ موت برحق ہے ہم تمام نے اک روز اس بے رحم موت کا نوالہ بننا ہے لیکن آپ نے اپنی بیٹی کی جس عمدگی سے تربیت کی تھی اس پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ سکول اوقات کی پابندی ‘ خوش اخلاقی ‘ بچوں سے پیار اور بڑوں کا احترام اس کا خاصا تھا۔ مجھے اجنبی  بھائیوں کی زبان سے یہ سن کر میرا اضطراب کم ہوا میری بیٹی دس روز تک ہسپتال میں زیرعلاج رہی جہاں ہر روز اس کا یہی اصرار تھا کہ میرے پھیپھڑے  ختم ہو گئے ہیں مجھے گھر لے چلو  میرا آخری وقت قریب ہے لیکن اسے آکسیجن لگی ہوئی تھی ۔ گورنمنٹ ہسپتالوں میں نظام آکسیجن اور ایمبولینس وغیرہ ناقص ہے اور سرکاری ہسپتال میں 40 ہزار روپے روزانہ اور 82 ہزار روپے کے انجکشن جبکہ ڈاکٹروں کو یہ نظرآتا ہے کہ مریض چند روز کا مہمان ہے ہمارا محکمہ صحت ابھی تک خودغرضی کے خول سے باہر نہیں نکل سکا ہسپتال میں آخری روز مرحومہ بیٹی نے 29 مارچ کو اپنے بھائیوں کو بتایا کہ تم نے جس جذبہ سے میری خدمت کی ہے میں بہت خوش ہوں۔
 اسی اثناء میں اسکی حالت تشویشناک ہو گئی اور وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔ وہاں سے میں اپنے آبائی گاؤں آگیا جہاں میری برادری اور عزیزواقارب  اظہار تعزیت کرتے رہے اسی اثناء میں میرے صحافی بھائی سعید قیصر کی والدہ محترمہ کی وفات کی اطلاع ملی تو سخت دکھ ہوا ۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری ماں فوت ہو گئی ہے ہر فرد کا اپنی ماں سے ایک والہانہ پیار ہے لیکن میری ماں جو 20 سال قبل فوت ہو ئی تھی آج بھی ہر لمحہ میرے پاس موجود ہوتی ہے وہ اس طرح کے ہر روز رات کو سوتے وقت میں اپنی ماں محترمہ کے پاؤں دبایا کرتا تھا جب وہ مجھے خوش نظر آتیں تو میں انکے پاؤں کو چومتا تھا اور ان کے پاؤں کو اپنے چہرے پر پھیرا کرتا تھا اس عمل کی وجہ سے 80 سال کی عمر میں بلاشبہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن میرا چہرہ ابھی تک تروتازہ ہے یہ میرا ان خوش قسمت لوگوں کیلئے پیغام ہے جن کی مائیں حیات ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہمارے مرحوم عزیز رشتہ داروں‘ والدین اور بیٹیوں کی مغفرت فرمائے (آمین)

ای پیپر دی نیشن