طاقتور حکمران اور بے بسی؟

راقم 70  اور 80 کے عشرے میں حکومتِ پاکستان کا ایک ادنیٰ سا کَل پُرزہ رہا ہے جسکی مدت کم و بیش12 سال ہے۔ اس مدت میں چشم کُشا واقعات  مشاہدے اور تجربے میں گزرے ہیں جو صرف حیران کن ہی نہیں بلکہ قومی مفاد میںتباہ کن قرار دئے جا سکتے ہیں، قومی مفاد جِسے انگلش میں’’Public Interest‘‘ کہتے ہیں ایسی اصطلاح ہے کہ اس عنوان کے ذیل میں سب کچھ اور تباہ کُن عمل بھی جائز قرار پاتا ہے، خواہ وہ پنجاب کے 5 دریائوںکے فروخت کا عمل ہوجو  طاقت ور فوجی حکمران نے کیا ، خواہ کارگل کی جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدلنے کا عمل ہیوی مینڈیٹ کے حامل سول حکمران کا ہو وغیرہ وغیرہ۔ راقم اس وقت ایسے ہی بظاہر معمولی لیکن ایک اہم واقعہ جو سرکاری ریکارڈ کا حصّہ ہے۔عوام کی  دلچسپی کیلئے حاضر ہے۔
صدر ِ مملکت اورچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق  کا دورِ  ہے اس واشگاف حقیقت سے کون واقف نہیں کہ فوجی کُوکے نتیجے میں زمام کار سنبھالنے والے چیف آف آرمی سٹاف کی حکمرانی روئے زمین کے جس حصّے پر بھی ہو طاقت کا سر چشمہ ہوتی ہے اس کی طاقت کو  ربِ ذوالجلال سے کم درجے کی کوئی سپر پاور زیر ِکر سکتی ہے نہ چیلنج کر سکتی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اپنی قوتِ قاھرہ کے ساتھ فوجی حکمران کی پشت پر ہوتی ہیں۔ ایسے طاقت ور حکمران کی بے بسی کا تماشہ راقم نے نہ صرف دیکھا بلکہ اُس تماشے میں آلہِ کار (Tool)بھی بنا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں ایک محکمے کا وجود صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہی ختم ہو گیا ہے وہ محکمہ ’’ ٹیلی گراف ‘‘ کہلاتا ہے ،1970کے عشرے میں اسکا وجود باقی تھا اور مستعد بھی۔ وزارتِ خوراک اور زراعت کے ایک
 ذیلی ادارے زرعی تحقیقاتی کونسلAgricultural Research Council  کے دفتر میں نصب   ’’ ٹیلی گراف‘‘ مشین پر ایک برقی تار  ازورلڈ بنک/ IMF موصول ہوتا ہے، جس کا  مضمون کچھ اسطرح سے ہے کہ زرعی  تحقیقاتی کونسل کوجلد از جلد ( کچھ دن کی مہلت کے ساتھ) خود مختار ادارے کی حیثیت دی جائے اور فلاں ابنِ فلاںکو اس کا چیئر مین تعینات کر دیا جائے ایسا نہ کرنے کی صورت میں اتنی اور اتنی امداد کا پیکج نہ صرف روک دیا جائے گا بلکہ منسوخ کر دیا جائے گا۔برقی تار دفتری اوقات ِ کار کے تقریباً اختتام کے قریب موصول ہوا تھا اور شائد ویک اینڈ تھا ۔ ٹیلی گرام پر دفتری کاروائی راقم کے دائرہِ کار میں آئی تھی باس کی طرف سے ہدایت ملی کہ اسکو دفتری نوٹ کے ساتھ موسٹ  ارجنٹ کا  ٹیک لگا کر صدرِ پاکستان جنرل  ضیاء الحق کی رہائش گاہ پر پہنچا دی جائے جو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف ہائوس راولپنڈی میں ہی تھی چنانچہ رات کے ابتدائی حصّے میںفائل صدرِ مملکت کو پہنچا دی گئی اور غالباً ایک دو ہفتے کے اندر اندر زرعی تحقیقاتی کونسل بذریعہ آرڈیننس خود مختار ادارہ قرار دے دی گئی اور  حسبِ حکم فلاں ابنِ فلاں اسکے پہلے چیئر مین قرار دے دیئے گئے، یہی پہلے چیئر مین ازیں قبل جنرل محمد ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی کا بینہ میں وزیر کے مساوی کسی اہم منصب پر فائز تھے اور انڈیا کے ایک دورے پر گئے تو وہاں ایسے اُلٹے سیدھے بیانات دئے کہ میڈیا نے ان کی خوب کلاس لی اور جنرل محمد ضیاء الحق نے رائے عامہ کے دبائو میں آکر انہیں منصب سے سبکدوش کر دیا اسطرح ان کی شخصیت استعماری قوتوں اور طاغوت کیلئے منظورِ نظر بن گئی اور ایسا حکم جاری کر دیاجسکی تعمیل بِلا چوں چُرا  قوتِ قاہرہ رکھنے والے طاقت ور حکمران کو کرنا پڑی 
نوبت ایں جا رسید کہ استعماری اور طاغوتی قوتوں کے حکم کی تعمیل میں آج1860 کا انگریزوں کا پاس کیا ہوا وہ محمڈن لاء بھی واپس لے لیا گیا ہے، جس میں انگریز راج میں مسلمانوںکو ذاتی مذہبی معاملات میں آزادی اورتحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ ستم بالائے ستم نکتہ یہ ہے کہ یہ کام پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویداروںکے ہاتھوں انجام پایا ہے.

ای پیپر دی نیشن