مولانا مجیب الرحمن انقلابی
امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ان اولیاء اللہ میں سے ہیں کہ جن کا نام آتے ہی بڑے بڑے علماء کرام اور بزرگ ہستیوں کے سر عقیدت ومحبت سے جُھک جاتے اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ آپ جس چہرے پر نگاہ ڈالتے اس کے دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتے ،آپ دلوں کی دنیا آباد کرتے ہوئے مخلوق کو کو خالق کے ساتھ جوڑنے ذریعہ بنتے،حضرت لاہوری کا تعلق ان علمائِ حق سے ہے جو کہ تمام زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدا بلند کرتے اور لاکھوں لوگوں کو شرک و بدعت اور ضلالت و گمراہی کے گڑھوں سے نکال کر ان کے دلوں میں توحید الہٰی، عشق نبوی ،حب صحابہ و اہل بیتؓ کی شمعیں روشن کر کے ان کے ایمان کی حفاظت اور جنت کی طرف راہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔حضرت لاہوری کو انگریز تحریک ریشمی رومال کے جرم میں دہلی سے گرفتار کرکے لاہور لائے تو تن تنہا تھے کوئی جاننے اور ضمانت دینے والا نہ تھا لیکن اس ولی باصفا نے لاہور میں 40سال مسلسل در س قرآن کا چراغ روشن کرکے لاکھوں لوگوں کی ہدایت اور جنت کا ذریعہ بنے اور جس دن وفات پائی اس دن بھی درس قرآن دیا اوراس سے اگلے روزجنازہ تھا اس دن آپ کی وصیت کے مطابق پہلے درس قرآن دیاگیا اور تدفین بعد میں ہوئی جب آپ کا جنازہ اٹھا تو لاکھوں لوگ عقیدت ومحبت میں روتے ،جنازے میں شریک کاندھا دیتے نظر آئے۔
مولانا احمد علی لاہوریؒ نیکی وتقویٰ کا استعارہ اور ہدایت کے ایسے روشن چراغ تھے کہ جس کی روشنی اور فکر ونظر سے اب تک لوگ استفادہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت لاہوری فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک پاؤں ریل گاڑی کے پائیدان پر ہو اور دوسرا پلیٹ فارم پر اسی حالت میں مجھے کوئی آواز دے کر پوچھے کہ احمدعلی ذرا گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے مجھے یہ بتادیجئے کہ پورے قرآن کا خلاصہ کیا ہے تو میں کہہ دو نگا کہ پورے قرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرو عبادت کے ذریعہ ،محمدالرسول اللہ کو راضی کرو اطاعت کے ذریعہ اور مخلوق خدا کو راضی کروخدمت کے ذریعہ یہی قرآنِ کریم کا خلاصہ ہے ۔
آپ ہی کے بارے میں صحافت وخطابت کے بے تاج بادشاہ آغا شورش کاشمیری رقم طراز ہیں’’حضرت لاہوری کا تعلق علمائے حق کی اس جماعت سے تھا جو حضرت مجدد الف ثانی سے نسبت رکھتی ہے جس کے سرخیل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی تھے جس کی بنیادیں حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل نے اٹھا ئیں جس کی شاخیں 1857کے ہنگامہ ہائے دار ورسن سے پھوٹیں حضرت مولانا لاہوری معناً ولی اللٰہی ٹہنی ہی کا پتہ تھے اس درخت کا ہی ایک پھول تھے جومولانا محمدقاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے اُگایا شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کے ہاتھوں پروان چڑھا اور ان کے نیک نفس جانشینوں نے اسے سرسبز رکھا علمائے حق کی یہ ایک ایسی زنجیر ہے کہ جس کی عظمت پر حیرت ہوتی ہے۔ انسان حیران ہوتاہے کہ یہ انسانوں کی جماعت ہے یاقدرت کا معجزہ ایک لکیر کھینچی آتی ہے کہ کوئی خم ہے نہ کوئی گرہ ایک صاف ستھرا سلسلہ ہے جو شروع سے اب تک چلا آرہا ہے اور جن لوگوں نے اس راہ کو اختیار کیا ہے ۔وہ کہیں بھی ہٹے محسوس نہیں ہوتے بلکہ جوانمردوں کا ایک قافلہ ہے جو فکر وتضرع کے ہمرکاب حق گوئی کے سائے میں بڑھتاچلا آرہا ہے مولانا احمد علی لاہوری اسی جوانمرد ونڈر ،فکر ی ونظریاتی قبیلہ کے چشم وچراغ تھے۔‘‘
تحریک ریشمی رومال انگریز سے برصغیر کی آزادی حاصل کرنے کا ایک منصوبہ تھا مگر بد قسمتی سے یہ منصوبہ قبل از وقت طشت ازبام ہو گیا انگریز نے اس تحریک کے قائدین اور اس سے وابستہ کارکنان کوگرفتار کرنا شروع کیا تو مولانا احمدعلی لاہوری بھی گرفتار کر لیے گئے مولانا احمد علی لاہوری کو گرفتار کرکے دہلی ،شملہ ،لاہور اور جالندھر کی مختلف حوالاتوں میں کئی ماہ گزارنے کے بعدآپ لاہور میں پابند ضمانت کرکے مشروط رہا کردیا گیا اورآپ پر دہلی اور سندھ جانے پر پابندی لگادی گئی ....مولانا احمدعلی کی اہلیہ بھی لاہورآگئیں ....لاہور کی زندگی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے جس وجہ سے آپ لاہوری کہلاتے ہیںمسجد لائن سبحان والی شیرانوالہ دروازہ سے باہر مسجد میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری پنجگانہ نماز ادا کرتے تھے فاروق گنج کی طرف جاتے ہوئے جو مسجد ہے وہاں آپ نے درس قرآن شروع کیا پھر آہستہ آہستہ تبلیغ وارشاد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا 1922ء میں حکیم فیروز الدین کی تحریک پر انجمن خدام الدین کا قیام عمل میں لایا گیا قرآن اور سنت نبویؐ کی اشاعت کو انجمن خدام الدین کا نصب العین قرار دیاگیا انجمن خدام الدین نے وقتی ضروریات کے مطابق دینی، اصلاحی اور سماجی ضرورتوں کے لیے قرآن وسنت کے روشنی میں کئی رسالے اور کتابیں شائع کیں یہ تمام رسالے اورکتابچے مولانا احمدعلی لاہوری کے تحریر کردہ تھے 1924...ء میں انجمن خدام الدین کی زیر نگرانی مدرسہ قاسم العلوم کی بنیاد رکھی گئی جس کی عمارت کی رسم افتتاح علامہ شبیراحمد عثمانی کے ہاتھوں 1934ء میں ادا ہوئی۔آپ نے عمربھر قرآن مجید کی خدمت کی (1935ئ)میں آپ نے حفظ ناظر ہ کا اہتمام فرمایا۔آپ کی اس محنت کا نتیجہ تھا کہ لاہور میں قرآنی تعلیمات عام ہوئیںآپ کے درس میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں اور یہ درس اتنا مشہور تھا کہ لوگ دوردراز سے آکر درسِ قرآن میں شریک ہوتے ۔ اس درس کی تکمیل پر سند حاصل کر کے جو حضرات مزیدتعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے انہیں چار ماہ میں فلسفہ، شریعت اورحضرت شاہ ولی اللہ کی مشہور کتاب ’’حجۃ البالغہ‘‘پڑھاتے تھے .... 1940ء سے شروع ہونے والا یہ درس آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا ۔
دنیا میں جو ذی روح بھی آیا ہے اس نے آخر ایک دن اس دنیا سے کوچ کرناہے مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے رب کو راضی کرکے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اس ضابطہ کے تحت مولانا احمدعلی لاہوری کا سفرِ آخرت پیش آگیا چنانچہ17 رمضان المبارک 1381ھ بمطابق 23فروری1962ء کو 77سال کی عمر میں آپ اس شان سے دنیا سے رخصت ہوئے کہ ساڑھے نوبجے رات نماز عشاء کی نیت باندھی اور سجد ے کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے۔ نماز جنازہ کی امامت مولانا لاہوریؒ کے صاحبزادہ مولانا عبید اللہ انور نے پڑھائی اور مسلمانان ہندوپاک کی یہ دینی متاعِ گراں مایہ لحدِ خاک میں رکھ دی گئی۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،