’خادمِ پاکستان‘ کا لقب میں نے دیا

Apr 15, 2022

جب ’خادمِ اعلیٰ‘ تھے تب ’خادمِ پاکستان‘ لقب دینے کا اعزاز حاصل ہوا، کالم گواہ ہے۔ کیوں خطاب دیا، وہی مضمون دوبارہ پڑھ لیں۔ چاہے جزوی سہی بالآخر ایک قومی حکومت کی شکل بن گئی گو مختصر مگر بہتر ہوگا کہ پسند نا پسند سے بالاتر فیصلے ہوں، چاہے معاشی ہوں یا انتظامی، خالصتاً ملکی مفاد کے تناظر میں کیے جائیں ۔ کسی بھی حکومت کو عوام قرضے لینے سے نہیں روک سکتے ۔ ہر مرتبہ خزانہ خالی اور مزید بدحالی کی کہانیاں حقیقی طور پر فرسودہ ہوچکی ہیں۔ عوام کو نہیں دلچسپی کہ قرضے کیوں لیے ؟ ہماری دلچسپی یہ ہے کہ اگر مجبوری سے لیے تو عوام پر خرچ کریں۔ اگر ہم میرٹ پر مملکت چلائیں تو ہمیں کبھی ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں۔ قرض کی ادائیگی اس طرح ہو کہ عوام مزید خوشحال ہو یعنی اگر لینے ہیں تو پھر عوام پر خرچ بھی کریں۔ عوام کو نہیں دلچسپی کہ کون کتنے بجے دفتر پہنچ گیا۔ 24 میں سے 23گھنٹے کام کر کے بھی مفید ثمرات پیدا نہ ہوں تو کیا فائدہ ؟ لمبی تقاریر، طول طویل مٹینگز سے ہم بیزار ہو چکے ہیں ۔
 ہر وہ لمحہ قیمتی ہے جو عوامی تکالیف کی عملی تالیف کا باعث بنے۔ پابندیِ وقت بہت خوشگوار تبدیلی بن سکتی ہے اگر توجہ عمل کی طرف رہے ۔ عوام کو نہیں دلچسپی کہ ایک چھٹی ختم کر دی۔ دو چھٹیوں کا آغاز توانائی بچت کے سلسلہ میں ہوا تھا ۔ اب بھی بہتر ہوگا کہ مفادِ عامہ کے وہ ادارے جو 24گھنٹے خدمات فراہم کرتے ہیں ان کے علاوہ دو چھٹیوں کا نظام برقرار رکھا جائے کیونکہ اس مد میں پٹرول، بجلی، گیس کے بلز کروڑوں سے اوپر جا پہنچتے ہیں۔ صرف چھٹی کا تصور نہیں۔ پہلے والے فیصلے کے پوائنٹس پڑھ لیے جائیں تو بہتر ہوگا۔
لمحہ موجود کی سب سے بڑی ضرورت سیاسی و معاشی استحکام کی بحالی ہے۔ تمام اکابرین مل بیٹھ کر اور اس فوری کام پر توجہ مرتکز کریں۔ جس طرح دوسرے آئینی اداروں کی مدت مقرر ہے اسی طرح آئینی طور پر ممکن بنا دیں کہ ہر حکومت اپنی مدت لازمی پوری کرے بھلے سے اس کے احتجاج اور مظاہرے ہوں۔ آئین ِ پاکستان کے تحت تمام ادارے حکومتِ وقت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ آئین اور قانون کے مطابق تمام عہدوں پر تقرر حکومت کی ذمہ داری ہے تو یہ ناانصافی ہے کہ مجاز اتھارٹی کو ہر مرتبہ وقت سے پہلے ختم کر دیا جائے ۔ اس کے تدارک پر سب کو فوراً مل بیٹھ کر توجہ دینی چاہیے ۔ نواز شریف کے دورسے تجویز دیتی آرہی ہوں کہ تشہیری مہمات پر اربوں روپے ضائع کرنے کی بجائے ٹھوس قدم اٹھائیں کہ پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں معتدبہ کمی کر کے کچھ عرصہ کے لیے فریز کر دیں۔ اگر اس با مقصد عملی تجویز پر عمل ہو جاتا تو نہ کرپشن کیس بنتے، نہ اربوں روپے بیکار سکیموں پر ضائع ہوتے۔ خوشحالی وہی ہے جو بلاتفریق امیر غریب کی دہلیز پر اترے۔ قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے خوشحال ہونے کے لیے اقدام کیے جائیں۔
پشاور کا جلسہ توقع سے بھی زیادہ رش لے گیا۔ عوامی شرکت کے مزید ریکارڈ بریک ہوںگے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اپنی حکومت کی موجودگی وجہ ثابت ہوئی۔ پہلی دفعہ عوام خود نکلے۔ لیڈر نہیں عوام نکلے ۔
 2013ء سے دیکھتے آرہے ہیں کہ ہمیشہ قیادت کو شکایت رہی کہ بہت جان مارنا پڑتی ہے، دھکے دے کر ورکرز کو نکالتے ہیں۔ اب کی مرتبہ پوری قوم ورکرز بن گئی، نہ کھانا کھلانے کا سر درد ہو، خود سے پٹرول خرچ کر کے، پیدل چل کر نکلی قوم۔ قارئین کالم 8مارچ کا پڑھ لیں۔ تب بڑا بحران تھا، حکومت رخصت نہیں ہوئی تھی۔ لکھا تھا کہ ’عمران خان مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ عمران خان یہودی ایجنٹ نہیں، اگر ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی‘۔ کراچی میں اکاموڈیٹ کرنے کی حد تک ٹھیک بیشک وزیر اعلیٰ بنا دیں اگر اختیار نہیں تو کیا؟ یہ ’اختیارنہیں‘ بھی کیا موذی مرض ہے جو اتحادی ہو یا منحرف ۔ اقتدار کے آخری سانسوں پر یاد آتا ہے کہ میں بے اختیار تھا۔ اصولی موقف بنا کر اگلی باری یہی کرواتا ہے۔ کرپشن کی اندھی چھوٹ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ صرف عوامی مسائل کے حل میں سدِ راہ ثابت ہو۔
معاہدے سینکڑوں ہوئے، عمل درآمد کسی پر نہیں ہوا۔ فکر مت کریں اب بھی نہیں ہوگا کیونکہ خود بھی نیک نیت نہیں۔ خلاف ورزی کا بھی شکوہ ہر مرتبہ اقتداد کے آخری برسوں میں جبکہ اتحادی ہر حکومت کے رہے ۔ کیا تماشا ہے جمہوریت کا۔ مان لیں کہ ہمارے تمام بحرانوں کا حل صرف مکمل شفاف چناؤ ہے۔ جتنی تاخیر ہوگی اتنا معاشی حالات میں بگاڑ آئے گا۔ خط کب ملا اور استعمال کب ہوا ؟ وقت کا تعین خط کی اہمیت اور حیثیت کا تعین کر دیتا ہے۔ صرف پاکستان نہیں، پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے، یہود و نصاری کے عزائم سے سبھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ صرف ایک ذات نہیں ہر مسلمان چاہے نام کی حد تک ہو نشانے پر ہے اور ہو اگر لیڈر وہ بھی نڈر تو ۔۔۔ بہرحال کوئی بھی دانشمند لیڈر مخالفین کو کھلا میدان فراہم نہیں کرتا۔ قومی اسمبلی میں مخدوم شاہ محمود کی تقریر انتہائی مؤثر تھی۔ پہلی بھی اور دوسری بھی۔ دکھ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کریم اورخاتم النبیین محمد ﷺ کے احکامات نہیں مانتے، سنت پر عمل نہیں کرتے، ان کے دل جذباتی باتوں پر کہاں پسیجنے تھے۔

مزیدخبریں