فوری انتخاب کے معدوم ہوتے امکانات

اب تو ’’سب پہ بھاری‘‘ نے بھی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کرلیا ہے کہ بیانیہ سازی کے میدان میں عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ابلاغ کے مقابلے میں تحریک انصاف کی سبقت کو اگرچہ انہوں نے ان ’’غیر ملکی کمپنیوں‘‘ کا کرشمہ قرار دیا تو بقول آصف علی زرداری بھاری بھر کم عوضانہ وصول کرتی ہیں۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ عمران خان صاحب کے پیغام کو ابلاغ کے جدید ترین ذرائع اور حربے استعمال کرتے ہوئے عوام میں پھیلانے والی ٹیم کا اصل سرغنہ کون ہے۔ملکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوجانے کے بعد ہمارے عوام کی مؤثر تعداد کو وہ یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کے خلاف ’’امریکی سازش‘‘ ہوئی۔اب وہ ’’سازش‘‘ کا شکار ہوئے زخمی شیر کی طرح شہر شہر جاکر عوام کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ سے نجات دلانے کے لئے بھرپور تحریک چلانے کی تیاریوں میں جت گئے ہیں۔ ’’سازش‘‘ والی داستان کی وجہ سے ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں ان کے دورِ اقتدار کی بابت واجب سوالات بھی اٹھائے نہیں جارہے۔ایسے سوالات پر توجہ مبذول کروائی جاتی تو عوام یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتے کہ عمران خان اور ان کی جماعت بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے اقتدار میں لوٹنے کی مستحق ہے یا نہیں۔
بدھ کی رات پشاور کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان صاحب نہایت اعتماد سے اپنے مخالفین کو یاد دلاتے رہے کہ پاکستان میں موبائل فون 6کروڑ لوگوں تک پہنچ چکے ہیں۔ نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت ان فونوں کی بدولت اپنا ذہن بناتی ہے۔وہ ان نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچاتے رہیں گے۔بالآخر ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کا ٹکنا ناممکن ہوجائے گا اور وطن عزیز میں فوری انتخاب کروانا ہی پڑیں گے۔
دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے قطعی جاہل شخص ہی انکار کرسکتا ہے۔ ذاتی طورپر میں اس کی مبادیات وحرکیات کو عاجزانہ تجسس سے مسلسل جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔میری تحقیق یہ اصرار کرنے کو اُکساتی ہے کہ سیاست میں کامیابی کے لئے محض سوشل میڈیا پر ا نحصار ہی کافی نہیں۔سابق امریکی صدر ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں صرف ایک ٹرم گزارنے کے بعد ناکامی اس کی واضح ترین مثال ہے۔اسے ایک ایسے شخص نے شکست سے دو چار کیا جو سوشل میڈیا سے عموماََ دور رہتا ہے۔پرانی وضع کا سیاست دان ہے۔برجستہ گفتگو کرتے ہوئے بسااوقات ’’بونگیاں‘‘ بھی مارجاتا ہے۔ اپنے اہداف کے حصول کے لئے مگر بنیادی طورپر سیاسی حربوں پر ہی تکیہ کرتا ہے۔
جوبائیڈن اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنیاد پر یہ حقیقت جبلی طورپر جانتا ہے کہ سوشل میڈیا بنیادی طورپر ’’چسکہ فروشی‘‘ ہے۔اس کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے اگرچہ سیاست دان اپنے لئے جنونی مداحین کا ایک گروہ بھی تیار کرسکتا ہے۔یہ گروہ اپنے ’’دیوتا‘‘ کی ہر بات سرجھکائے تسلیم کرلیتا ہے۔اس کی بات سے اختلاف کرنے والوں کو حقارت سے ’’بکائو‘‘ وغیرہ بھی قرار دیتا ہے۔جنونی مداحین کے گروہ چاہے وہ عددی اعتبار سے بہت طاقت ور بھی نظر آئیں کسی بھی ملک کی آبادی کا وہ حصہ ہوتے ہیں جو ہمہ وقت ہیجان برپا کرنے کو بے چین رہتے ہیں۔عوام کی اکثریت مگر امن وسکون کی متلاشی ہوتی ہے۔ہمارے جیسے ممالک میں روزمرہّ زندگی کے مسائل سے نبردآزما ہونا ان کی بنیادی ترجیح ہے۔انہیں ان مسائل سے غافل رکھتے ہوئے دن کے 24گھنٹے ’’عوامی تحریک‘‘ چلانے میں مصروف نہیں رکھا جاسکتا۔
میری عمر کے صحافی جب تاریخ کے حوالے دیتے ہیں تو ہمارے نوجوانوں کی اکثریت نفرت وحقارت سے یہ کہتے ہوئے ان پر غورکرنے کو آمادہ نہیں ہوتی کہ ’’زمانہ بدل چکا ہے‘‘۔زمانہ واقعتا بدل چکا ہے۔بدل جانے کے باوجود وہ مگر جمود کا شکار نہیں ہوا۔آج سے کئی دہائیاں قبل اقبالؔ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کہتے ہوئے یہ سمجھاچکے ہیں کہ زمانے کا سفر کبھی رکتا نہیں۔اسے مسلسل آگے بڑھنا ہوتا ہے۔آگے بڑھنے کے سفر والی حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ کارچلاتے ہوئے آپ کو ’’بیک مرر‘‘ پر بھی مسلسل نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔ محض سامنے والے شیشے کے اس پار دیکھتے رہیں تو حادثہ ہوجاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ہماری تاریخ کے ذہین ترین سیاستدان تھے۔ان کی مخالف سیاسی جماعتیں باہمی اختلاف کی نذر ہوچکی تھیں۔ان جماعتوں کو ان جیسا قدآور لیڈربھی میسر نہیں تھا۔اقتدار کے کھیل پر اپنی کامل گرفت پر اعتماد کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے مارچ 1977میں قبل از وقت انتخاب منعقد کروانے کا اعلان کردیا وگرنہ آئینی اعتبار سے وہ مزید ایک برس تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ سکتے تھے۔
ان کی جانب سے انتخاب کا اعلان ہوتے ہی باہمی اختلافات میں بٹی اپوزیشن جماعتیں راتوں رات ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ نامی تنظیم میں یکجا ہوگئیں۔ان جماعتوں میں تین بڑی مذہبی جماعتوں کے علاوہ اصغر خان جیسے ’’لبرل‘‘ اور ولی خان کے ’’سیکولر‘‘ اور ’’قوم پرست‘‘ حامی بھی شامل تھے۔ نظر بظاہر ’’نوستاروں‘‘ والا اتحاد ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ نظر آتا تھا۔ مار چ میں ہوئے انتخاب کو تاہم دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ اتحاد نے ’’نظام مصطفیٰﷺ‘‘ والی تحریک چلادی ۔ ریاستی جبر کابھرپور استعمال اسے قابو میں لانے میں ناکام رہا۔ بالآخر ملک کو ’’خانہ جنگی‘‘ سے بچانے کے لئے 4جولائی 1977کی رات جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگادیا۔ اگرچہ نئے انتخابات ’’90روز‘‘ کے دوران کروانے کا وعدہ بھی کیا۔
’’نوے روز‘‘ کا وعدہ کرتے ہوئے جنرل ضیاء اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ اب کی بار ’’صاف ستھرے انتخاب‘‘ ہوئے تو کوئی ایک جماعت بھرپور اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔مارشل لاء کے نفاد کے محض دو ماہ بعد مگر ذوالفقار علی بھٹو 1977کے ستمبر میں لاہور آئے تو اس شہر میں ان کے استقبال کے لئے عوام کا حیران کن ہجوم سڑکوں پر امڈ آیا۔ جنرل ضیاء اس کی وجہ سے ’’نوے روز‘‘ والے وعدے کو بھلانے کو مجبور ہوئے۔ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف 1974میں دائر ہوا قتل کا ایک مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے علاوہ ’’پہلے احتساب پھرانتخاب‘‘ کا راگ بھی الاپا گیا۔بالآخر4اپریل 1979کی صبح بھٹو صاحب تختہ دار پر لٹکادئیے گئے۔ انتخاب کے ذریعے ’’جمہوریت‘‘ کی بحالی کے لئے ہمیں 1985تک انتظار کرنا پڑا۔
جمعرات کی صبح شائع ہونے والے کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ عمران خان صاحب کی جانب سے ’’امپورٹڈ گورنمنٹ‘‘ ٹھہرائی فی الوقت یقینا ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ ہی نظر آتی ہے۔اسے کمزور تر کرنے کا لیکن میری دانست میں واحد واولین حربہ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجانا نہیں بلکہ وہاں موجود رہنا ہے۔ قومی اسمبلی سے کنارہ کش ہوکر تحریک انصاف فوری انتخاب کے حصول کے لئے ’’عوامی تحریک‘‘ چلانے میں مصروف ہوگئی تو ’’بھان متی کے کنبے‘‘ میں شامل ہر فریق ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ قائم رکھنے کے لئے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کرنے کو مجبور ویکجا ہوجائے گا۔وہ ’’غیر سیاسی‘‘ قوتیں بھی چوکناہوجائیں گی جنہیں عمران خان صاحب اشاروں کنایوں میں ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے ’’سہولت کار‘‘ اور امریکہ کے ’’آلہ کار‘‘ ثابت کرنے  کی کوشش کررہے ہیں۔شہر شہر ہوئے جلسوں کی رونق سے فوری انتخاب مسلط کرناناممکن تو نہیں مگر انتہائی دشوار ہوجائے گا۔

ای پیپر دی نیشن