اُم المومنین حضرت خدیجة الکبریٰؓ

دس رمضان المبارک 1443؁ھ  اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے میں ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ کی سرزمین حرم کے دامن میں واقع شعب ابی طالب میں واقع جنت المعلیٰ قبرستان میں سب سے پہلی ام المومنین سب سے پہلی زوجہ رسول ؐ ، سب سے پہلی حبیبہ اور وزیرہ رسول ؐ محسنہ اسلام حضرت ام المعصومین خدیجۃ الکبریٰؓ کی قبر اطہر کے پاس بیٹھا صدیوں پیچھے تاریخ کے دریچوں میں گم اسلام اور مسلمانوں کے صدر اسلام میں گزرے ہوئے تاریخی لمحات کو سوچ کر صفحہ قرطاس پر منتقل کررہا ہوں۔ مکہ مکرمہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا حرم قرار دیا جس کے عین وسط میں اپنا سب سے پہلا گھر بیت اللہ اپنے دو عظیم اور جلیل القدر انبیا ء حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں تعمیر کروایا جس کے باسیوں کو بے آب و گیاہ وادی میں دنیا بھر کے قسم و قسم کے پھلوں کا رزق عطا فرمایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک آذان پر قیامت تک دنیا کہ کونہ کونہ سے لوگ لبیک کہتے ہوئے لگاتار آتے جارہے ہیں اور روزقیامت تک آتے رہیں گے۔
نسل بعد نسل اس گھر کی کفالت سرداری کلید برداری کی سعادت حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑسے لے کر حضرت ابوطالب علیہ السلام تک حاصل رہی ، اسی شہر مکہ مکرمہ میں ایک عظیم المرتبت خاتون جو عرب کی امیر ترین خاتون تھی ملیکۃ العرب ، سیدۃ القریش اور الطاہرہ کے پاکیزہ القاب سے زمانے بھر میں مشہور تھیں۔ عالی نسب اور سخاوت میں اعلیٰ ترین مقام کی حامل خاتون کے دروازے پورے عرب کے امیروں اور غریبوں کے لیے ہروقت کھلے رہتے تھے۔تجارت پیشہ سے وابستہ اس خاتون کا تقریباً ہر عرب سردار مقروض تھا۔ اٹھائیس یا چالیس سال تک اس انتظار میں رہی کہ اپنے لیے وہ ہمسر منتخب کرے جو پوری کائنات میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو ، پادریوں کاہنوں اور ہر عام و خاص کی زبان پر جس کی آمد کا تذکرہ تھا ،تمام انبیاء علیہم السلام نے جس کی آمد کی خوش خبریاں دی گئی تھیں اور یہ بھی بتایاگیاتھا کہ اس کاکلمہ اورپرچم پوری دنیامیں بلند ہوگا‘ کے انتظار میں اپنی طیب و طاہر زندگی کے چالیس سال گزار دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت نے دنیا میں کئی ایک معجزات کے ذریعے آمد کی خبر دی۔ باپ کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی ہوچکا تھا ، ولادت کے چند ہی سال بعد والدہ کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا ، داد ا حضرت عبدالمطلب  نے کفالت کی ذمہ داری سنبھالی ۔ دادا کی رحلت سے پہلے دادا نے اپنے تمام فرزندوں کو بلا کر اپنے پوتے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری لینے کے بارے جب پوچھا تو سب نے کہا یہ انتخاب اپنے پوتے پر چھوڑیے ۔ پوری دنیا میں اس سے بڑھ کر ہم نے کوئی عقل مند نہیں دیکھا ۔دادا کے کہنے پر آپ ؐ نے اپنے تمام چچائوں کودیکھا اور نظر انتخاب اپنے شفیق چچا حضرت ابوطالب علیہ السلام پر جا ٹھہری ۔ آپ ؐ نے کم و بیش چالیس سال زندگی کا عرصہ اپنے چچا کے زیر کفالت گزارا ۔ جب آپ ؐ کی عمر پچیس سال ہوئی حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ  نے سفر شام مال تجارت میں شراکت دار بننے کی حضرت ابوطالب علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کو دعوت دی جسے شرائط کے ساتھ قبول کرلیا گیا۔ قافلہ کی سالاری حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوسونپی گئی۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ  نے اپنے غلام میسرہ کو آپ ؐ کے ہمراہ کیا ۔ راستے میں کئی معجزے میسرہ نے دیکھے ۔ شام کے علاقہ میں پادریوں کے گروہ کو آپ ؐ  کی آمد کا شدت سے انتظار تھا ۔  آپ ؐ کے معجزات دیکھ کر سب سے بڑے پادری نے مہر نبوت اور دیگر نبوت کی نشانیاں دیکھ کر بے ساختہ گواہی دی ’’ بے شک تو محمد اللہ کارسول ہے ‘‘ واپسی کامیاب سفر اور بے انتہا منافع کی خوشی میں باب مکہ سے بیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک آپ ؐ کے ایک ایک قدم پر غلاموں کو اونٹ صدقہ کے طورپر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اپنے غلام میسرہ سے سفر کی روئیداد سن کر حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبری ؓ نے آپ ؐ کے سامنے آپ کے ساتھ شادی کرنے کی پیشکش کی۔ جو آپ ؐ نے اپنے چچا ابوطالب کی اجازت اور مشورہ سے قبول کی ،  حضرت ابوطالب  جو کفالت اور حفاظت کی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا رہے تھے ‘ نکاح پڑھا اور اسی سال حضرت خدیجۃ الکبریٰ  کو اولین زوجہ رسول ہونے شرف حاصل ہوا ۔ جب آپؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو خدیجۃ الکبریؓ  نے اپنا سارا مال آپ ؐ کے قدموں میں نچھا ور کرکے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ اعلان نبوت کے بعد ہرروز کفار و مشرکین مکہ کی طرف سے مظالم کی انتہا ہوتی گئی ۔ آپ ؐ کے اس وقت محافظ اورکفیل حضرت ابوطالب  کفار و مشرکین کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ۔ دوسری طرف غمگساری وفاداری میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیھاالسلام نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ 
اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ کے بطن سے یکے بعد دیگرے بیٹے عطا فرمائے لیکن وہ جلد دنیا سے چل بسے ۔ جب تک یہ ہستیاں حیات رہیں آپ مکہ مکرمہ میں مقیم رہے جب آپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو کافروں اور مشرکین کے مظالم کے سامنے ڈھال بننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے آپ ؐ کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی۔اللہ نے آپ ؐ کو فاطمۃ الزہرا ء علیھا السلام سیدۃ نساء العالمین بیٹی اسوقت عطافرمائی جب بنی ہاشم کا پورے مکہ نے سوشل بائیکاٹ کررکھا تھا ۔ لیکن ایک سے ایک مشکل میں بھی خدیجۃ الکبریٰ علیھا السلام نے اپنے شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا ۔
کفار کے ظلم بڑھتے ہیں ہجرت سے تین سال پہلے یکے بعد دیگرے آپ کے دونوں محسن حضرت ابوطالب   اور دس رمضان کے دن حضرت محسنہ اسلام خدیجہ الکبریٰ کا انتقال ہوگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ان پیاروں کی یاد اور غم میں پورا سال عام الحزن کے نام سے منایا اور سال بھر مغموم رہے ۔ جن کے احسانات کے بارے میں آپ ؐ نے فرمایا تھا اگر علی ؑ کی تلوار نہ ہوتی ،خدیجۃ الکبریٰ کامال نہ ہوتا اور چچا ابوطالب  کی حمایت نہ ہوتی تو اسلام کبھی پروان نہ چڑھتا۔  10رمضان المبارک 1443؁ھ ان محسنین اسلام کی قبور طیبہ کوہ حجون کے قبرستان میں بیٹھا ان کے اسلام پر احسانات کو یاد کرکے آنسو بہارہا ہوں کہ اے امی جان ہم تیرے نالائق بیٹوں نے تیرے مقام و رتبہ کو نہ پہچانا ، ہم تیری قبر تک کی حفاظت نہ کرسکے، ہم نے تیری اولاد کا حق ذی القربیٰ جو اجررسالت بھی ہے وہ بھی پورا نہ کرسکے۔ میں آپؑ کی  قبر مبارک پر بیٹھ پر پوری امت کو پیغام دینا چاہتا ہوں جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان محسنوں کے احسانات کو زندگی کے آخری سانسوں تک فراموش نہیں کیا ۔آئیں ان کی سیرت اور قربانیوں کو یاد کرکے عظمت اسلام کو پہچانیں اور اس کی حفاظت کریں۔ مدینہ منورہ میں ان کی مظلوم بیٹی فاطمہ زہرا ء علیھا السلام اور ان کے معصوم بیٹوں کی قبریں بھی زنجیروں کے اندر قید ہیں ان شہیدوں پر ہمارا سلام ۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت ہمیں ان کی شفاعت نصیب فرمائے ۔آمین ۔

ای پیپر دی نیشن