جمہوریت کا حسن سیاسی جماعتوں سے ہے۔دنیا بھر کی جمہوری مملکتیں سیاسی جدوجہد سے ہی پروان چڑھی ہیں جن میں سیاسی جماعتوں کی پختگی اور استحکام نے نمایاں کردار ادا کیا۔ہمارے ہاں دوبڑی سیاسی جماعتوں نے ایک عرصہ تک جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹے،اور اقتدار کے ہچکولے کھاتے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔اگر طائرانہ نظر دواڑئی جائے تو اب پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہیں جن میں مسلم لیگ وہ جماعت ہے جسے قیام پاکستان کی داعی جماعت ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔اس کی کمان ہمیشہ روایتی سیاستدانوں کے ہاتھ میں رہی،یہاں تک کہ ایک آمر بھی مسلم لیگ کی چھتری تلے بیٹھا جمہوریت کا راگ الاپتا رہا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر نومولود سیاستدان نے مسلم لیگ کے ہی کسی گوشے سے آغاز کیا اور پھر اڑان بھرتے گئے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی نہ کوئی حصہ ہر حکومت میں نظر آیا ۔غور طلب بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے بڑے اس غوروفکر سے کیوں ناپید ہیں کہ مسلم لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ختم ہونا چاہیئے یاں مسلم لیگ ہی کیوں تقسیم ہوتی ہے؟جمہوریت ہو ،چاہے آمریت،فارورڈ بلاک مسلم لیگ ہی سے کیوں سامنے آتا ہے۔تخریبی صورتحال یہ ہے کہ الف سے یے تک مسلم لیگ موجود ہے،بس اقتدار کا حصہ بننے کے لئے ن ،م کا اضافہ کر کے مفاد کی سیاست کو ترجیح دے دی جاتی ہے۔۹۹ء میں بھی صفایا کیا گیا،اور مسلم لیگ ہی کہ نئے بلاک سے حکومت بنائی گئی ،تب بھی مسلم لیگ کی قیادتوں نے سر جوڑنے کی بجائے مفادات کے آگے سر جھکا دیا۔یہ کبھی نہیں سوچا کہ قیام پاکستان کی داعی اس جماعت کو ٹکڑوں میں تقسیم کس کا ایجنڈاہے اور کیوں متحدہ مسلم لیگ کی کوششوں کو زائل کیا جاتا ہے۔موقعہ ملنے پر بھی مسلم لیگ کی بقاء کیلئے کوئی راست قدم نہیں اٹھایا گیا۔غیر جمہوری طاقتوں نے نظریہ ضرورت کے تحت سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ کا سلسلہ جاری رکھا،اسی وجہ سے قومی شعور سے عاری سیاستدان، سیاسی بحران کے ذمہ دار ٹھہرے۔دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے نوعمر پاکستان میں حکومت کرنے کا موقعہ ملاجس نے ایک ایسی ریاست کا تصور دیا جس میں عوام، ریاست اور حکومت ایک مضبوط زنجیر ہوتی ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دیا۔لیکن صد افسوس روٹی، کپڑا اور مکان کا دیا ہوا نعرہ آہستہ آہستہ بھٹوازم میں بدل گیا۔منشور سے ہٹا کر شخصیت پرستی طرف رخ موڑ دیا گیاکیونکہ غیر سیاسی طاقتوں کو بھٹو کے وژن سے کوئی سروکار نہیں تھا بس عوامی طاقت کا اندازہ تھا شائد اسی لئے بھٹو دور کے اثرات آج بھی اور ممکنہ طور پر آئندہ بھی پاکستان کی سیاست پر پڑیں گے۔اب نوعمر قیادت کو سوچنا ہو گا کہ وہ وژنری سیاست کو فروغ دیتے ہیں یا مفاہمتی سیاست کو۔۔؟
تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف ہے جو بنیادی طور پر عمران خان فین کلب ہے،یہ الگ بات ہے کہ سیاستدانوں کی کھیپ شامل کر کے اس کی تنظیمی شکل سامنے لائی گئی۔اس سیاسی جماعت میں عمران خان کی شخصیت متاثر کن ہے۔عمران خان نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ اپنی سیاست کا آغاز نئی جماعت سے کیا۔پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کو نہ صرف اپنی جماعت کی پختگی اور شفافیت کو برقرار رکھنا چاہیئے تھابلکہ جماعت کے ارتقاء اور یکسانیت کو بھی اقتدار کے بدمست نشے میں فراموش نہیںکرنا چاہیئے تھا ، بلکہ ہوش و حواس سے ان برائیوں کا خاتمہ کرناتھاجو ریاست کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ محض انتخابات میں حریفوں کا صفایا اگلی صف میں آنے کے لئے کافی نہیں ،اپنی صفوں میں بھی اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی اتحاد مشروط اور جانبدار ہوتے ہیں ان میں دراڑوں کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ نئے اور پرانے سیاستدانوں کی فراست کا امتحان ہو۔تمام سیاسی جماعتیں میثاقِ جمہوریت کی بجائے جماعتی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دیں اور توڑپھوڑ کے عمل سے بچنے کے لئے سیاسی کارکنوں کی نظریاتی تربیت کا آغاز کریں کیونکہ جمہوریت کا حسن سیاسی جماعتیں ہیں سیاسی حماقتیں نہیں۔ سیاسی جماعتیں پاکستان کی نظریاتی حدود کی سلامتی میں رہ کر پاکستان کی بھلائی اور استحکام کیلئے کام کریں،عوام اپنا ووٹ دیں اور وقتاً فوقتاً ہر جماعت کو ووٹ دیا جائے جو جمہوریت نہیں پاکستان کے استحکام کیلئے کام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو۔یقینا جمہوریت اک طرز حکومت اور فلسفے کا نام ہے جبکہ پاکستان ایک ٹھوس حقیقت ،ایک جنون اور ایمان کو تازہ رکھنے کا نام ہے۔