اسلام آباد (خبرنگارخصوصی+نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ) آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ آئین کے تحت اختیار پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ اسمبلی ہال میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا۔ جس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ملٹری آپریشن اور اعلیٰ عسکری حکام، آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب، وفاقی سیکرٹریز داخلہ، خارجہ، فنانس، دفاع اور اطلاعات و نشریات، چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ، چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز اور آئی جیز نے شرکت کی۔ اعلیٰ عسکری حکام نے داخلی سلامتی سے متعلق بریفنگ دی۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے امن و امان اور وزیرستان میں انسداد دہشتگردی کے آپریشن سے متعلق ایوان کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمارے شہداءکی عظیم قربانیوں سے امن بحال ہوا، یہ محنت چار سال میں ضائع کر دی گئی، ملک میں دہشت گردی واپس کیوں آئی، کون لایا؟۔ تمام صوبوں نے دہشت گردی کے خاتمے اور فاٹا اصلاحات کے تحت مقاصد کے لئے رقوم دی تھیں، وہ کہاں گئیں؟، خیبرپختونخوا کو دیئے جانے والے اربوں روپے کے وسائل کہاں استعمال ہوئے؟، ان کا جواب لینا ہوگا۔ آرمی چیف نے 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ اور ارکان کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات کا مرکز پاکستان کے عوام ہیں، آئین پاکستان اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کا مظہر ہیں، عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں، حاکمیت اعلی اللہ تعالی کی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ہی آئین کو اختیار ملا ہے، آئین کہتا ہے کہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیا گیا، اجلاس 26 اپریل کے بجائے آج شام 5 بجے ہوگا۔ آرمی چیف کی آمد پر اراکین اسمبلی اور وفاقی وزراءنے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا۔ جبکہ عسکری حکام کی جانب سے شرکاء کو ملکی سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دی گئی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کرہمارے پاکستان کی بات ہونی چاہئے، ماضی میں دہشتگردوں سے مذاکرات فائدہ مند نہیں رہے، طاقت کا محور عوام ہیں، آئین کہتا ہے اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا، آئین پاکستان اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کے مظہر ہیں، عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ قومی سلامتی کے ان کیمرہ سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا یہ نیا آپریشن نہیں بلکہ یہ ایک کمپین ہے جو ریاست پاکستان کی پہلے سے منظورشدہ اور جاری سٹریٹیجی پر مبنی ہے، یہ ہول آف نیشنل اپروچ ہے، یہ عوام کے غیر متزلزل اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہیں، اس وقت پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں رہا۔ اس کامیابی کے پیچھے ایک کثیر تعداد شہداءو غازیان کی ہے،جنہوں نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی، ان میں 80 ہزار سے زائد افراد نے قربانیاں پیش کیں جن میں 20 ہزار سے زائد غازیان اور 10 ہزار سے زائد شہداء کا خون شامل ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ دہشت گردوں کے لیے ریاست کی رٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، دہشتگردوں سے مذاکرات کا خمیازہ ان کی مزید گروہ بندی کی صورت میں سامنے آیاہے ، ملک میں دائمی قیامِ امن کے لیے سکیورٹی فورسز مستعد ہیں، اس سلسلے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں۔ اپنی اختتامی گفتگو میں آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر "ہمارے پاکستان" کی بات کرنی چاہیئے۔ پاکستان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں اور پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دیگی۔ اراکین قومی اسمبلی نے ڈیسک بجا کر اور تالیوں سے آرمی چیف کے خیالات کا خیر مقدم کیا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت غلطی تھی۔
اسلام آباد (عبدالستار چودھری) آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پارلیمنٹ میں قومی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں ملکی سلامتی کے متعلق امور پر بریفنگ دی،بعدازاں آرمی چیف نے ارکان کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ آرمی چیف کی ان کیمرہ اجلاس میں خصوصی طور پر شرکت موجودہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آرمی چیف نے اپنی گفتگو میں دو انتہائی اہم امور پر اپنا دوٹوک موقف بیان کر دیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ سینٹر آف گریویٹی پاکستان کے عوام ہیں، آرمی چیف کی جانب سے آئینی اختیارات کو منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کئے جانے کی بات بھی پارلیمان اور سپریم کورٹ میں جاری تنازعات کے تناظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ آرمی چیف نے 1973 کا آئین بنانے والوں کوخراج تحسین پیش کیا۔ اس کے علاوہ آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ باہمی چپقلش اور اختلافات کو ختم کر کے پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لئے مذاکرات کی میز پر آئیں، سپہ سالار کی جانب سے نئے اور پرانے پاکستان کی بجائے "ہمارے پاکستان" کا پیغام درحقیقت سیاستدانوں کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کر کے مذاکرات کی جانب بڑھنے کا پیغام ہے۔