ہفتہ ، 24رمضان المبارک ، 1444ھ، 15 اپریل 2023ء

عید پر نئے نوٹ جاری نہیں ہونگے: سٹیٹ بینک
لو جی! اپنی طرف سے سٹیٹ بینک نے ’’بڑی خبر‘‘ دیدی ہے۔ اس سے  بس چند فیصد وہ لوگ یا وہ طبقے متاثر ہونگے جنہوں نے اس بار عیدی دینی ہے۔ باقی عوام کی اکثریت اس وقت پْرانے نوٹوں کو ترس رہی ہے، اسے نئے نوٹوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں، انہیں گلے سڑے پرانے نوٹ ہی میسر ہو جائیں تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں گے۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت کے نزدیک نوٹ، نوٹ ہی ہوتا ہے نیا ہو یا پرانا انہیں اس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کی جیب میں یہ نوٹ پڑے ہوں۔ اس وقت جو صورتحال ہمارے سامنے ہے اس میں تو غریبوں کی جیب ہی کیا متوسط طبقے کی جیب بھی خالی ہے۔ یہ بات سٹیٹ بینک والے بھی بخوبی جانتے ہیں اس کے باوجود نجانے کیوں سٹیٹ بینک والوں نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ یہ تو سراسر دل جلانے والی بات ہے۔ سٹیٹ بینک بھی تو سرکاری ادارہ ہے۔ اس لئے شاید اسے بھی لوگوں کا دل جلا کر خوشی ہوتی ہے۔ شاعر نے کسی بھلے وقت میں جب نوٹوں کی اتنی قلت نہ تھی اپنے محبوب کو بھی نوٹ سمجھ کر کہا تھا:۔
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے
مذاق اْڑاتے ہیں آدمی کا
مگر اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ چہروں سے زیادہ ان کاغذ کے نوٹوں کی وقعت اور قدر و قیمت بڑھ گئی ہے۔ اگر یہ جیب میں ہوں تو کوئی کسی کو گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ اب عوام کی جیب بھی نوٹوں سے خالی ہے اس لئے حکومت بھی اب ان بیچاروں کو گھاس نہیں ڈال رہی۔ عجیب ناقدری کا عالم ہے کہ انسانوں کی قدر و قیمت گھٹ گئی ہے۔ کاغذی نوٹوں سے بھری تجوریوں اور جیبوں والوں کی وقعت بڑھ گئی ہے۔ اب تو کم بخت محبوب کہہ لیں یا معشوق  وہ بھی حسن و خوبصورتی سے پہلے جیب ٹٹولتے ہیں کہ بھرا ہوا ہے یا  خالی ہے۔ ’’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘ والی بات ویسے ہی تو زبان زد عام نہیں ہوئی اس کے پیچھے بھی یہی نوٹ کے قدر و قیمت والی حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ جبھی تو غریب بے چارے کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ 
کیا اب کھڑکی دروازے کے مسائل بھی سپریم کورٹ حل کرے گی، جسٹس فائز عیسی
لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے جسے دیکھو منہ اٹھائے معمولی معمولی بات پر سپریم کورٹ دوڑا چلا آتا ہے۔ کسی کو احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ یہاں صرف اہم نوعیت کے معاملات ہی زیر بحث آنے چاہیں۔ خواہ دیوانی ہوں یا فوجداری، سیاسی ہوں یاغیر سیاسی ان مسائل کا تعلق عوام سے ہو یا سماج سے یا کسی سرکاری و غیرسکاری ادارے سے انہیں درجہ بدرجہ عام چھوٹی عدالت سے ہوتے ہوئے بڑی عدالت تک آنا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں چونکہ ہمیشہ سے گنگا الٹی بہتی چلی آ رہی ہے جس دیکھو ذرا ذرا سی بات پر اعلیٰ عدالت کا رخ کرتا ہے۔ اس طرح اہم نوعیت کے مقدمات کی سماعتوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ان کی سماعت طویل عرصہ تک ملتوی ہو جاتی ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہو رہا ہے یوں لگا ہے گویاہر طرف آگ لگی ہے۔ خاص طورپر سیاسی میدان میں تو ہر معاملہ یوں عدالت میں لایا جا رہا ہے گویا یہی سب سے اہم ہے اور اعلیٰ عدالتیں سب چھوڑ چھاڑ کر پہلے اس کی سماعت کریں اور پھر فوری فیصلہ دیں۔ کیا اس طرح اعلیٰ عدالتوں کاوقت ضائع کرنا جرم نہیں اگر عدالتیں ایسا کرنے والوں پر جو عدالتوں کاوقت برباد کرتے ہیں بھاری جرمانہ عائد کریں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں سیاستدان بھی عقل کو ہاتھ ماریں ان کے پاس پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے جہاں سب کے پاس بہت وقت ہوتا ہے ان معاملات پر بحث کرکے ان کو سلجھانے کے لئے اس لئے سیاسی  معاملات عدالت کی بجائے پارلیمنٹ میں زیربحث لائیں۔ رہ گئے۔ دیوانی اور فوجداری معاملات تو وہ بھی پہلے عام اور پھر اعلیٰ عدالتوں میں لائیں جائیں اس طرح بڑی عدالتوں پر مقدمات کا جو بوجھ لدا ہے وہ کم ہوگا اورانصاف کی فراہمی کی رفتار بھی تیز ہوگی۔ مگر ہمارے ہاں کس کی گلی یا سڑک ٹوٹی ہے سوریج کاپانی بہہ رہا ہے سکولوں میں دروازے کھڑکیاں نہیں۔ سٹریٹ لائٹس نہیں، پانی، بجلی نہیں آ رہی ہمسائیہ نے فٹ پاتھ بنا دی ہے جیسے عام مسائل بھی سپریم کورٹ میں اٹھائے جانے لگے ہیں اس سلسلہ کی بیخ کنی ضروری ہے اسی لئے بڑوں نے کہا تھا ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ اسی مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہر ادارے کواس کا کام کرنے دیا جائے تو زیادہ بہتر  نتیجہ آ سکتا ہے…
بھارت میں وزیر اعلیٰ کا پوسٹر پھاڑنے پر کتے کیخلاف مقدمہ درج 
لگتا ہے یہ کتا آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کا سخت مخالف ہو گا یا ان کے کسی حریف کا سدھایا ہوا  ہو گا۔ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ جس انسان نے اس جانور کے خلاف اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر مقدمہ درج کرایا ہے اسے ہم کس کھاتے میں شمار کریں۔ اس نادان دوست کی وجہ سے پورے بھارت کو پتہ چلا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی فوٹو والا پوسٹر ایک کتے نے پھاڑ دیا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ کتے کے پوسٹر نوچنے اور پھاڑنے کی ویڈیو اور تصاویر بھی اب کسی گرما گرم فلم کی اشتہاری مہم کی طرح جگہ جگہ  دیکھی جا رہی ہیں اور لوگ اس پر صرف قہقہہ ہی لگا سکتے ہیں اور کسی نے کیا کرنا ہے۔ کتا تو چلیں جانور ہے سیاسی سوجھ بوجھ سے بھی عاری ہوتا ہے۔ مگر  جس انسان نے یہ سارا پاکھنڈ رچایا ہے۔ اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ اس کی اس حرکت سے تو آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی جو  جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ اس کا کیا بنے گا۔ لوگ تو  مذاق اڑا رہے ہیں کہ ایک کتے نے ان کی مٹی پلید کر دی۔ اب وہ بے چارا تو کتے کو اس حرکت پر بدتمیز کتا کمینہ کہہ کر دل کی بھڑاس بھی نہیں نکال سکتا۔ پوسٹر پھاڑنے والا تو پہلے ہی کتا ہے۔ رہی بات کمینے کی تو  کتوں میں یہ صفت شاید ہی پائی جاتی ہو یہ لفظ سو فیصد انسانوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اب مقدمہ درج کرانے والے کی تو مت ماری گئی تھی وہ شاید اس طرح خود کو کتے سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کے چکر تھا۔ مگر یہ پولیس والوں کو کیا ہوا۔ انہوں نے کیسے مقدمہ درج کر لیا۔ اب پولیس اور حکمران پارٹی کے ورکر شہر میں اس کتے کو کیسے تلاش کریں گے۔ جہاں ہزاروں کتے گلیوں سڑکوں پر آوارہ مٹر گشت کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان میں انسانی وجود رکھنے والے وہ کتے بھی شامل ہیں جن کو خاص طور پر داڑھی اور ٹوپی رکھنے والے انسانوں اور مینار والی عمارتوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ 
سماجی سرگرمیوں میں شرکت سے زندگی طویل ہو سکتی ہے۔ تحقیق 
جب سے جدید طرز حیات ہمارے ہاں  فروغ پانے لگا ہے انسان سماجی سرگرمیوں سے دور ہونے لگے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک جب بڑی بڑی رہائشی سوسائٹیاں وجود میں نہیں آئی تھیں۔ پوش علاقے بھی چند ایک تھے۔ شہروں یا دیہات لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ غم ہو یا خوشی اہل محلہ ایک دوسرے کے قدم بقدم شانہ بشانہ ہنستے مسکراتے یا آنسو بہاتے نظر آتے تھے۔ مصروف سے مصروف شخص بھی آتے جاتے گلی محلے کے دکانداروں اور نظر آنے والے افراد سے چند منٹ نکال کر علیک سلیک اور گفتگو کر لیتا تھا۔ شام کو تھوڑا وقت نکال کر یار دوستوں سے گپ شپ لگا لیتا تھا۔ اس طرح سارا سماج انسانی رشتوں میں جکڑا رہتا تھا۔ گھروں کی عورتیں تو وقت ہو نہ ہو آس پڑوس میں رہنے والی خواتین سے گھریلو معاملات سے لے کر محلے کے مختلف گھروں کے حالات تک سے آگہی رکھتی تھیں۔ ایک دوسرے کے گھر بھی آ جا کر بہت سے ضروری و غیر ضروری حالات سے آگہی حاصل کر کے اسے دوسروں تک پہنچانے کا کام بھی سرانجام دیتی تھیں یوں کئی خواتین تو پھپھا کٹنی اور بی جمالو کے اعزاز سے بھی سرفراز ہوتیں۔ اس کے باوجود یہ سماجی سرگرمیاں اور رابطے انسانی زندگی میں جہاں رونق بخشتے وہاں زندگی کے سفر کو ذرا طویل کرنے کا باعث بھی بنتے مگر جب سے گھر بڑے بننے لگے۔ گلی محلے کی بجائے رہائشی بلاک بن گئے تو یہ زندگی کے سفر کو طویل کرنے کے لوازمات بھی ختم ہونے  لگے یوں زندگی ایک بوجھ سی بن گئی۔ لوگ آس پڑوس سے انجان ہو گئے۔اور جلدی مرنے لگے۔ اب نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ سماجی سطح پر فعال ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ بھرپور معاشرتی سماجی زندگی بسر کرتے ہیں وہ دوسروں کی نسبت اچھی اور طویل زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ ہم سب بھی پہلے کی طرح دوسروں سے سماجی تعلقات اور میل جول بڑھائیں اور اچھی طویل زندگی پائیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...