سپریم کورٹ‘ حکومت اور پارلیمان میں ٹکرائو کی افسوسناک صورتحال

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے آٹھ رکنی وسیع تر بنچ نے ایک شہری راجہ عامر کی دائر کردہ آئینی درخواست کی سماعت کے بعد گزشتہ روز پارلیمنٹ سے منظور کئے گئے سپریم کورٹس پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا۔ یہ بل توثیق کیلئے ابھی صدرمملکت کے دستخطوں کا منتظر ہے۔ فاضل عدالت نے اپنے احکام میں قرار دیا کہ صدرمملکت اس بل پر دستخط کریں یا نہ کریں‘ دونوں صورتوں میں اس پر عملدرآمد نہیںہوگا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ بظاہر مجوزہ قانون سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اہم ہے۔ ہم نے جائزہ لینا ہے کہ مجوزہ بل سے آئین کی دفعہ 191 کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی جس کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔عدالتی حکم نامہ میں استفسار کیا گیا ہے کہ کیا مقننہ کے پاس سپریم کورٹ کے رولز میں ردوبدل کا اختیار ہے؟۔ فاضل عدالت نے اس حوالے سے صدر‘ وزیراعظم‘ وفاق پاکستان‘ بار کونسلز‘ وفاقی وزارت قانون اورحکومتی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی۔
عدالت عظمیٰ کے آٹھ رکنی بنچ نے قرار دیا کہ موجودہ کیس کے حقائق اور اثرات معمولی نہیں۔ بادی النظر میں یہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اختیارات میں براہ راست مداخلت ہے۔ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘ اس لئے احتیاط کے طورپر حکم امتناعی جاری کیاگیا ہے۔ سیاسی جماعتیںچاہیں تو کیس کی کارروائی کا حصہ بن سکتی ہیں۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کا ہمیشہ احترام ہے‘ تاہم عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے۔
دوسری جانب حکومت اور اتحادی جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے عدالتی بل پر عملدرآمد روکنے پر متعلق سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ’’ون مین شو‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ جسے عدالتی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طورپر جگہ ملے گی۔ اس سلسلہ میں حکومتی اتحاد کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں عدالت عظمیٰ کے عبوری حکم کی بھرپور مزاحمت کرنے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک قانون کو جنم لینے سے پہلے ہی روک دیا گیا ہے۔ بیان میں اس کیس کی سماعت کیلئے تشکیل دیئے گئے وسیع تر بنچ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا اور بنچ کو تحلیل کرنے کا تقاضا کیا گیا۔ وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمان کو قانون سازی سے روکنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف سے حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر ان سے مشاورت کی جبکہ جمعۃ المبارک کے روز قومی اسمبلی کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں چیف آف آرمی سٹاف‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور دوسرے عسکری حکام کو بھی مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں عسکری حکام کی جانب سے سکیورٹی چیلنجز پر بریفنگ دی گئی جبکہ قومی اسمبلی نے الیکشن فنڈز کا بل گزشتہ روز مسترد کر دیا۔
یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ آئین و قانون ساز ادارہ‘ مقننہ‘ آئین کا تحفظ و پاسداری یقینی بنانے کی ذمہ دار اعلیٰ عدلیہ اور آئین و قانون پر عملدرآمد کرنے اور کرانے والی حکومت آج اپنے اپنے اختیارات کا دعویٰ کرتے ہوئے عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکی ہیں جس سے ملک میں انتشار‘ افتراک‘ انارکی اور خانہ جنگی کے حالات تو پیدا ہونگے‘ جو ملک کی سلامتی کمزور اور سسٹم کو تاراج کرنے پر منتج ہو سکتے ہیں جبکہ ادارہ جاتی محاذآرائی سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی کا اہتمام بھی ہو رہا ہے اور ملک کی سلامتی کے درپے اندرونی و بیرونی عناصر کو بھی لازمی طورپر ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ملے گا۔عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت کسی کیس کے معاملے میں تو یقینا کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم موجودہ صورتحال چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات کے حوالے سے پیدا ہوئی ہے جو سپریم کورٹ رولز کے تحت فاضل چیف جسٹس کو حاصل ہیں اس لئے اس صورتحال کا اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ان اختیارات پر چیف جسٹس کے ساتھی ججوں کے بھی تحفظات ہیں۔ اس معاملہ میں فریقین کے مابین غلط فہمیاں‘ تحفظات اور تنازع اس وقت پیدا ہوا جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے ماہ جنوری میں پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت توڑے جانے کے بعد ان کے 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات کا پی ٹی آئی کی جانب سے تقاضہ ہوا جبکہ حکومتی اتحادی جماعتوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی اور ترجیحات کے تحت ان اسمبلیوں کے آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد سے گریز کی پالیسی اختیار کی۔ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ کہہ کر معاملہ کا اپنے ازخود اختیار کے تحت نوٹس لیا کہ آئین نے انہیں دستک دی ہے۔ انہوں نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دیا تو ان کے ساتھی ججوں کی جانب سے بھی اس معاملہ میں ازخود اختیارات پر تحفظات کا اظہارکرتے جبکہ متعلقہ فاضل ججوں نے مخصوص بنچ کی تشکیل پر بھی سوال اٹھایا۔ عدالت عظمیٰ کے اندر پیدا ہونے والے اس اختلاف رائے کی بنیاد پر ہی 9 رکنی بنچ سکڑتا سکڑتا تین رکنی بنچ تک آپہنچا اور اس بنچ نے پنجاب کے انتخابات کیلئے 14 مئی کی تاریخ مقرر کرکے حکومت‘ الیکشن کمشن اور دوسرے متعلقہ اداروں کو فنڈز اور سکیورٹی سمیت انتخابات کے تمام لوازمات پورے کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے برعکس اختلاف رائے رکھنے والے پانچ فاضل ججوں نے اپنے اپنے نوٹس کے ذریعے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے فیصلہ کو غیرمؤثر قرار دیا اور سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت نہ کرنے اور آئینی معاملات کا جائزہ لینے کیلئے عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ تشکیل دینے کا تقاضا کیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ابھی تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا جبکہ فاضل چیف جسٹس نے اختلاف رائے کا اظہار کرنے والے اپنے ساتھی ججوں سے ملاقاتیں اور رابطے بھی کئے۔
دوسری جانب حکومت اور پارلیمان نے بھی چیف جسٹس کے ازخود اختیارات پر تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے اسمبلی کے ایوان میں دو قراردادیں منظور کیں اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرکے صدرمملکت کو توثیق کیلئے بھجوا دیا۔ بلاشبہ آئین و قانون سازی پارلیمنٹ کا آئینی اختیار ہے اور آئین کی رو سے ہی پارلیمنٹ کے منظور کردہ کسی بل کی صدرمملکت مقررہ میعاد کے اندر توثیق نہ کریں تو وہ ازخود نافذالعمل ہو جاتا ہے۔ اسی تناظر میں حکومت اور پارلیمنٹ کی جانب سے مجوزہ قانون کے خلاف دائر کیس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے آٹھ رکنی نبچ تشکیل دینے اور عبوری حکم کے ذریعے عدالتی بل پر عملدرآمد روکنے پر احتجاج اور سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اسے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت سے تعبیر کیا جا رہا ہے جبکہ اس بل کو ابھی قانون کا درجہ بھی حاصل نہیں ہوا۔
اسی تناظر میں فاضل چیف جسٹس کے انتظامی اختیار کے حوالے سے حکومت‘ پارلیمان اور آئینی و قانونی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کسی قانون کی منظوری کا جو پراسس آئین میں موجود ہے‘ اس میں کسی عبوری عدالتی حکم کے ذریعے رکاوٹ کیسے پیدا کی جا سکتی ہے۔ آ ئین میں تو تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اور ان کی حدود و قیود متعین ہیں۔ اگر ادارہ جاتی سطح پر اپنے اپنے آئینی اختیارات کے معاملہ میں آئین کے تقاضے نبھائے جاتے رہیں تو ریاستی اداروں کے باہم ٹکرائو کی کبھی نوبت ہی نہ آئے۔ عدلیہ نے اپنے کسی حکم یا فیصلہ کی متعلقہ ریاستی انتظامی اداروں کے ذریعہ ہی تعمیل کرانا ہوتی ہے۔ اگر ریاستی آئینی ادارے ہی کسی عدالتی فیصلہ کی زد میں آ رہے ہوں تو پھر 1997ء والے وہ حالات ہی پیدا ہونگے جب صدرمملکت اور آرمی چیف سمیت متعلقہ حکومتی ریاستی اداروں نے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے احکام کی تعمیل سے گریز کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ملک کو درپیش چیلنجوں کی موجودگی میں کیا ہم ادارہ جاتی ٹکرائو کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال قومی‘ سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کیلئے بہر صورت لمحۂ فکریہ ہونی چاہئے۔ اپنی اپنی انائوں کی خاطر کم از کم ملک اور سسٹم کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دینا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن