شیر افگن خان نیازی پاکستان پیپلز پارٹی کے دیرینہ رہنما تھے۔ 2002ء کے انتخابات میں پی پی کے ٹکٹ پر جیتے وہ پرویز مشرف کو فوجی آمر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف بڑی شعلہ بیانی کرتے رہے۔ پھرجب اس دور کی کنگز پارٹی کو اسمبلی میں اکثریت دلانے کے لیے ووٹ کم پڑ گئے تو راتوں رات پیپلز پارٹی کے گروپ پیٹریاٹ کو تشکیل دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو جو پہلے ہی چار’ پی‘ کے ساتھ پارلیمنٹیرنز بن چکی تھی، پانچواں’ پی‘ لگا کر پیٹریاٹ بھی بنا دیا گیا اورشیر افگن نیازی بھی اسی گروپ کا حصہ بنے۔ وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر پارلیمانی امور رہے۔ انھیں آئین کا حافظ بھی کہا جاتا تھا۔ آئین پاکستان کی کوئی شق ایسی نہ تھی جو شیر افگن نیازی کو ذہن نشین نہ ہو۔
پاکستان کے آئین میں کسی سرکاری ملازم، کسی باودری فوجی افسر کے صدر مملکت بننے کی کسی بھی طرح کوئی گنجائش نہیں، شیر افگن نیازی کے لیے سب سے بڑا اور مشکل فریضہ ایک باوردی فوجی سربراہ کا آئینی دفاع تھا۔ جیسے ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنا پڑتے ہیں ویسے ہی ایک آئینی خلاف ورزی کو جائز ثابت کرنے کے لیے کئی آئینی خلاف ورزیاں درست قرار دینا پڑتی ہیں۔ یہ وہ اسمبلی تھی جس میں اعتزاز احسن، چودھری نثار، جاوید ہاشمی، جیسے ممبرز تھے۔ مولانا فضل الرحمن قائد حزب اختلاف تھے۔ کوئی بھی آئینی سوال اٹھتا شیر افگن آئین کی ایک شق کو کسی دوسری شق سے ملا کر اسے درست ثابت کر ڈالتے۔ جب تک سب کو سمجھ آتی کہ وہ پہلی اور دوسری شقیں کیا ہیں بات کہیں اور ہی نکل چکی ہوتی۔پانچ سال شیر افگن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو دو شقوں کو ملا کر پڑھنے میں الجھائے رکھا اور فوجی وردی میں پرویز مشرف کی صدارت چلتی رہی۔
پاکستان کے آئین میں پونے تین سو سے زائد شقیں ہیں، یہاں سیاسی و آئینی ماہرین کی کامیابی اور قابلیت یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ کس طرح کسی نہ کسی شق میں فائدے کی گنجائش نکال لیتے ہیں۔ سیاست میں جو بھی کام کررہا ہوتا ہے وہ اسے آئینی ہی قرار دیتا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی جو آئینی عمل تھا لیکن دوسری جانب سے اسے بیرونی سازش اور ارکان کی خرید و فروخت سے جوڑ کر غیر آئینی قرار دے دیا گیا اور اس کے لیے بھی آئین ہی کی شق کا حوالہ دیا گیا۔ مظاہرے ، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کی تو قانون میں کوئی گنجائش نہیں لیکن احتجاج تو آئینی حق ٹھہرتا ہے اور سب جائز۔ پنجاب میں پچیس حکومتی ارکان نے بغاوت کردی اور اپوزیشن سے مل گئے، یہ جانتے ہوئے کہ اس کی سزا ان کی نااہلی ہے۔ یہی آئین میں تھا لیکن یہاں آئین یہ ٹھہرا کہ نااہلی سے پہلے انھیں گنا بھی نہیں جاسکتا، اس وقت جب وہ ابھی رکن اسمبلی ہی تھے جبکہ آئین کے تحت تو کسی اہل ووٹر کو حق رائے دہی سے روکا ہی نہیں جاسکتا۔
اسمبلیاں تحلیل کی گئیں پس پردہ وجوہات سیاسی ہی سہی، آئین واضح ہے کہ نوے روز میں انتخا بات ہونے ہیں لیکن اسی آئین میں کسی قومی ایمرجنسی کی صورت میں مدت میں توسیع کی گنجائش بھی موجود رکھی گئی ہے تو یہاں ڈاکٹر شیر افگن کا ملا کر پڑھنے والا فارمولا کام کر سکتا ہے۔ انتخابات کے دوران نگران حکومتوں کے قیام کی شق بھی آئین ہی کا حصہ ہے لیکن کیا اگر کسی صوبے میں پہلے انتخابات ہوجائیں تو پھر کیا ہوگا، اس پر آئین خاموش ٹھہرا تو اس کی بھی اپنی اپنی تشریح کردی گئی۔ پچاس سال مکمل ہوگئے۔ ان پچاس سال میں متفقہ آئین میں دو درجن سے زیادہ ترامیم کی گئیں،کہیں فوجی حکمرانوں نے اٹھاون ٹو بی جیسی شقیں شامل کراکے اسمبلیوں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا تو کہیں باسٹھ تریسٹھ میں صادق و امین کی ایسی شقیں ڈالی گئیں جو کسی کو سیاست سے تاحیات باہر کرنے کا آسان ہتھیار ثابت ہوئیں۔
آئین پاکستان ہی وہ دستاویز ہے جس کے تحت امورِ مملکت چل رہے ہیں۔ اس آئین میں باوردی صدور کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود پچاس میں سے بیس سال فوجی حکمران رہے اور آئین کے تابع کام کرنے والی اعلیٰ عدالتوں نے ان غیر آئینی حکومتوں کو جائز قرار دیا۔ آئین نے واضح طور پر اسمبلی کی مدت پانچ سال مقرر کررکھی ہے لیکن یہاں چند سال میں ہی اسمبلیوں کو گھر بھیجا گیا اور یہ سب بھی آئین کے اندر ہی رہتے ہوئے کیا جاتا رہا۔ دوسری جانب فوجی حکمران گیارہ گیارہ سال تک مختار کل بن کر ملک چلاتے رہے اور انھی فوجی حکمرانوں نے پھر آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا۔ آئین واقعی کاغذ کا ٹکڑا ہے لیکن اس پر لکھی تحریر مقدس۔ یہ وہ تحریرہے جس پر اتفاق رائے میں برسوں لگے۔ اس کاغذ کے ٹکڑے کی تحریر پران لوگوں نے دستخط کیے جو ملک کی تمام اکائیوں اور تمام مکاتب فکر کی جماعتوں کے نمائندے تھے۔ کہنے کوتوسب ادارے ،پورا ملک آئین کے تابع ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس کو جب بھی موقع ملا اس نے اس آئین کو کاغذ کا ٹکڑا ہی سمجھا اورموم کی ناک کی مانند جب جہاں چاہا موڑ لیا اور آج پچاس سالہ آئین پاکستان کی حیثیت گھر میں اس بوڑھے والد کی طرح بن چکی ہے جس کو بزرگ ہونے کے ناتے عزت تو دی جاتی ہے لیکن فیصلے اپنے اپنے ہی کرلیے جاتے ہیں اور آخر میں والد صاحب سے ان کے چاہتے نہ چاہتے رضامندی کا سرٹیفکیٹ لے لیا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ ابا جی کا حکم ہے۔