فہمیدہ کوثر
قوم کی نظریں چیف جسٹس آف پاکستان پر
کل کا مورخ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے لکھے گاکہ کس طرح اقتصادی ترقی کےلئے سیاستدانوں نے غلط تصورات قائم کئے کس طرح نظریہ ضرورت نے ملک کو لاقانونیت کی طرف دھکیلا کس طرح غریب کے لئے جینا دوبھر ہوا کس طرح اقتصادی امور میں ناسمجھی کی بنا پرسیاستدان اپنےہی شہریوں کے حقوق غصب کرتے رہے کس طرح آئین سے کھلواڑ ہوتا رہا نہ سیاسی استحکام آیااور نہ معاشی استحکام مل سکا آج پوری قوم کی نظریں چیف جسٹس آف پاکستان پرمرکوز ہیں اور اس فیصلے کی متمنی ہین جو آئین اور قانون کے مطابق جس سے تیزی سے بڑھتے ہوئے انتشار کا خاتمہ ہوسکے۔ چیف جستس آف پاکستان ایک زیرک مدبر اور دانشور انسان وہ آئین اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ملک کے مستقبل کی خاطر وہ فیصلہ فرما سکتے ہیں جو تاریخ میں ان کا نام سنہری الفاظ میں رقم کرجائیگا۔ جمہوری معاشروں یہ ذمے داری اس وقت عدلیہ پر آجاتی ہے جب کوئی فرد ریاست یا ادارے اتنے کمزور ہوجائیں کہ ہامن کی ذمے دایاں پوری کرنے سے قاصر ملک انتشارکی طرف جل نکلے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے فیصلوں نے اب تک سیاسی انتشار کو ہوا دی ہے جب جب فوجی ادوار آئے ملک مزید انتشار آئے یحی خان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا اگر فوج کنٹرول نہ سنبھالتی تو قومی سالمیت کوخطرہ تھا کچھ ہمارے سیاستدانوں کی نااہلیاں ملک کے استحکام کو لے ڈوبیں جمہوریت کا پہلا اصول ہی سیاسی استحکام اور فعال اور عوام دوست عدلیہ کا قیام ہے قانون کے فیصلوں کی روشنی میں ملک کو انتشار سے بچانا عدلیہ کی ذمہ داری بن جاتی ہے لیکن جب عدلیہ کے فیصلوں کودرخوراعتنا نہ سمجھ جائے توجنگل کاقانون بن جاتاہے جب شکایات کاازالہ عدلیہ کے زریعے ہوتا ہے تو عوام کاریاست پر اعتماد بڑھتا ہے لوگ کسی فرد یا گروہ کی بجائے ریاست کے شکرگزار ہوں گے اس سے فرد معاشرے ریاست اور قانون کارشتہ مضبوط ہوتاہے اور سب سے آسان حل یہی ہے کہ عدلیہ کوفعال آزاد اور قابل۔رسائی بنایاجائے تاکہ وہ ایسے غیررسمی بندھنوں کامتبادل فراہم کرسکے جو اداروں کی بجائے لابیز کو مضبوط بناتے ہیں جب قانون کے اولوں سے نظریں چرانا عادت بن جائے تو لوگوں کی توجہ قانون سے ہٹ کر افراد یا گروہوں کی طر ف منتقل ہوجاتی ہے اور یہ گروہ قومی مفادات پر اثر انداز ہوتے ہیں تب ایسے معاشرے میں کونٹیکسٹ آف فری رولز کی روایت ختم ہوجاتی ہے ایک مفکر نے لکھاکہ ترقی پذیر ممالک کی ریاستیں اگر بلیاں ہیں توان کے گلے میں قانون کی گھنٹی کون باندھے تویہ فرائض عدلیہ کے سپرد ہوجاتے ہیں کہ وہ عوام اداروں اور ریاست می توازن برقرار رکھ سکے ایک واضح حقیقت تو یہ بھی ہے کہ آج تک کوئی بھی ملک اقتصادی ترقی می ناکام نہیں رہزا جہاں پر صحیح معنوں میں جمہوریت کا نفاذ ہو ہمارے پاس صرف یہ دوراستے ہیں جن پر عمل کرکے معاشرے کی درست سمت کا تعین کرسکتے ہیں رات کی تاریکی میں بھٹکنے والے صبح کے تارے منزل کانشان بناکر منزل تک پہنج جاتے ہین ہمارا المیہ یہ کہ ہمیں توپتہ بھی نہیں کہ ہم بھٹکے ہوئے ہیں بقول اقبال
جہان۔ تازہ کی افکار۔تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ۔ خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اس وقت ہمارا نظریہ ضرورت نہیں بلکہ نظریہ غربت کا خاتمہ ہے جس سے ہنگامی بنیادون پرنمٹنے کی ضرورت ہے معاشی اور سیاسی استحکام ہماری او¿لین ترجیح اور تقاضہ ہے پاکستان اور بھارت کے ادارے ایک جیسی مشکلات کاشکار ہیں لیکن کرپشن اورلاقانونیت میں پاکستان آگے بڑھ گیا ہے ہوسکتاہے۔ بھارت کے پاس مسائل سے نمٹنے کے لئے اور راستے ہوں لیکن پاکستان کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ جواسے سری لنکا بننے سے بچاسکتاہے اور وہ قانون کی حکمرانی ہے ماضی میں اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ان حالات کی ذمے داری ان محسنوں پر جاتی ہے جو اختیارات تو سب رکھتے تھے مگرجواب دہ نہیں تھے ہمیں اس وقت سیاسی استحکا م کی ضرورت ہے اور یہ استحکام عدلیہ کے مضبوط فیصلوں کا متقاضی ہے۔