خْدا نے پہلی چیز جو پیدا کی وہ قلم تھی
معروف خطاط محمد اقبال قمر کی نوائے وقت سے خصوصی گفتگو
خطاطی کا شوق چار نسلوں سے پروان چڑھ رہا ہے
عربی، اُردو، پنجابی، انگریزی، ہندی، بنگالی رسم الخط میں خطاطی کر چکا ہوں
ہر سکول میں خطاط ہونا چاہیے، دینی مدارس میں خطاطی کا فروغ ضروری ہے
خاور عباس سندھو
khawarsindhu@gmail.com
فن خطاطی ایسا ہنر ہے جو دنیا کے ہر گوشے اور زبان میں پایا جاتا ہے۔ رومن، لاطینی اور عربی زبانوں میں اس فن کی تاریخ بے مثال رہی ہے۔ اسلامی خطاطی نے بھی ایک تاریخ رقم کی ہے جس کا قرآن سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
اسلامی خطاطی دراصل تحریر اور خطاطی کو فنکارانہ انداز سے پیش کرنے کا نام ہے۔ یہ عموماً مشترکہ اسلامی ثقافتی ورثہ رکھنے والے ممالک میں دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا ماضی شاندار اور مستقبل توانا ہے۔ جدید چھاپہ مشینوں سے پہلے کتابت پر انحصار نے بڑے بڑے خطاط پیدا کئے ۔ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔
اوکاڑہ کے قصبہ جندراکہ میں 1963 میں جنم لینے والے محمد اقبال قمر نے اپنے وراثتی فن کی بدولت منفرد شناخت حاصل کی ہے۔ اسلامی خطاطی کے فن پاروں کے ساتھ طلبہ و طالبات کی خوش خطی کو بہتر سے بہترین بنانے میں بھی کردار ادا کررہے ہیں۔
آرٹ اینڈ کیلی گرافی بلاشبہ ایک بڑا فن ہے۔ چند سال قبل اخبارات کا انحصار کتابت پر رہا ہے جس نے اس فن کو زندہ رکھنے میں تعمیری کردار ادا کیا ہے۔ محمد اقبال قمر اپنے فن پاروں کے ساتھ نوائے وقت آفس لاہور پہنچے ۔ نوائے وقت گروپ کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری سے ملاقات کی اور اپنے فن پارے دکھائے۔ کرنل سید احمد ندیم قادری ، جو فنون لطیفہ کے نہایت قدردان ہیں ، نے اقبال قمر کے کام کو خوب سراہا اور ان کی محنت ، لگن اور باکمال ہنر پر خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر محمد اقبال قمر سے سوال و جواب کی نشست ہوئی۔
س : نوائے وقت میں آکر کیسا محسوس ہوا؟
ج : نوائے وقت تو میرا استاد ہے۔ اس ادارے سے مجھے بہت سپورٹ ملی۔ ایک دور تھا جب اخبار کاتب تیار کرتے تھے۔ نوائے وقت کی مین سرخی دیکھ کر لگتا کہ کسی بہترین کاتب نے لکھی ہے۔ جسے دیکھ کر میں اپنی اصلاح کرتا ۔
س: کیسے شوق پیدا ہوا، کس سے سیکھا؟
ج : بچپن سے شوق تھا۔ دراصل یہ فن ہمارا نسل درنسل ہے۔ میرے دادا ، والد اور بچے سب خوش خط لکھتے ہیں۔ سکول دور میں ڈرائنگ کا جنون تھا۔میٹرک کرنے کے بعد بڑے بھائی سے کہا کہ کسی پینٹر کے پاس چھوڑ دیں۔18 مارچ 1980 کو میرے استاد پینٹر جاوید نے حصول منزل کے لئے میر اہاتھ تھاما ۔ انہوں نے قلم پکڑنا سکھایا کیونکہ ’’علم بغیر قلم ممکن نہیں‘‘ ۔ دو سال سیکھا پھر اپنا کام شروع کردیا۔
س : ابتدا میں کس طرح کی خطاطی کی ؟
ج : ہمارا علاقہ زراعت سے وابستہ ہے ۔ زرعی آلات کو رنگ کرتے اور ان پر لکھتے تھے ۔ پہلا جملہ لکھا ’’ گندم احتیاط سے لگائیں ‘‘۔ میرے بزرگوں کا دور کمرشل نہیں تھا، علاقہ میں کسی نے کوئی خط یا درخواست لکھوانی ہوتی تو وہ دادا جی کے پاس آتے ، ان کی ہینڈ رائٹنگ بہت اچھی تھی۔
س: قرآن سے متعلق کیلی گرافی کا خیال کیسے آیا، اب تک کتنا کام کرچکے؟
ج : کوئی بھی آدمی جس شعبہ سے وابستہ ہو اللہ پاک اسے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مجھے بھی موقع ملا ۔ قرآن کی خطاطی کی بدولت اللہ سے ناطہ جڑا رہتاہے ۔ بندہ باوضو رہتا ہے۔ 40 سال سے شعبہ سے وابستہ ہوں ۔ اندازے کے مطابق اب تک ہزاروں اسلامی فن پارے بنا چکا ہوں۔
س : کتنی تعلیم حاصل کی، بطور طالبعلم کیسے تھے ؟
ج : گائوں سے ہی میٹرک کیا پھر دیپالپور منتقل ہوگئے۔ میٹرک کلاس کی فیئر ول پارٹی کے موقع پر ٹیچر نے مجھے اچانک ڈائس پر بلایا اور اعلان کیا کہ واحد طالبعلم ہوں جس نے پورا سال ایک بھی چھٹی نہیں کی ۔ یہ اعزاز بھی آج بھی میرے سمیت دو طلبہ کے نام درج ہے۔
س : فن خطاطی کے سوا کچھ کرنے کا موقع ملا؟
ج : اس فن کو باقاعدہ پروفیشن بنانے سے پہلے شعبہ طب سے وابستہ ہوا۔ پھر کچھ عرصہ کاروبار کیا۔ گندم ، چاول وغیرہ کی خریدوفروخت کی۔ کریانہ کی دکان بھی بنائے رکھی۔ پھر دیپالپور کچہری میں ایک وکیل کا منشی بن گیا ۔ کچہریوں کا نظام جھوٹ پر مبنی ہے، وکیل سے جھوٹ ، جج سے جھوٹ ، سائل سے جھوٹ ، ریڈر سے جھوٹ ، سارا جھوٹ ہی جھوٹ اور یہ سب میری طبیعت کے منافی تھا۔ نہ جھوٹ بولتا ہوں اور نہ ہی میرے گھر میں اس کی گنجائش ہے۔ اس لئے وہ بھی چھوڑد یا۔
س: پینٹنگ کے لئے کیا ضروریات ہوتی ہیں؟
ج : کا غذ ، لوہے کے بورڈ (چادر)پر خطاطی ہوتی ہے اور خا ص طورپر کینوس پر جو پانی سے محفوظ ہوتا ہے ،یعنی واٹر پروف ۔ رنگ ، برش وغیرہ اور یہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔
س : کیا قرآن پاک کی خطاطی کا پلان ہے؟
ج : بالکل ہے ، یہ تو بہت بڑی سعادت ہے۔ میرے ایک شاگرد محمد شفیع نے قرآن پاک لکھاہے۔ وہ اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں لیکن اسے بہت شوق ہے۔ وہ پلے داری کا کام کرتاہے ۔ ا س نے یہ سارا کام اپنے وسائل سے کیا۔
س: اپنے بچوں کے حوالے سے بتائیں ، کیا انہیں شوق ہے؟
ج : تین بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں ، سب خوش خط لکھتے ہیں ۔ میری چھوٹی بیٹی نگہت میرا فخر ہے۔ دیپالپور یونیورسٹی میں خطاطی کے مقابلے میں اس نے فرسٹ پوزیشن حاصل کی ۔ ڈسٹرکٹ اور ڈویژن لیول کے مقابلوں میں بھی جوہر آزمائے اور دوسری پوزیشن اپنے نام کی۔ڈھیروں انعامات اس کے پاس ہیں۔
س : کتنی زبانوں میں خطاطی کی؟
ج :عربی ، اردو،پنجابی ، انگریزی ، ہندی ، بنگالی سمیت قریبا ہر رسم الخط میں خطاطی کرچکا ہوں ۔ ایک بار ایک بھارتی وزیر آئے اور ہندی زبان میں خطاطی کرائی۔ ہندی آتی تو نہیں مگر خوش خطی دیکھ کر بھارتی مہمان حیران رہ گیا۔
س : کیا یہ ہنر دوسروں کو منتقل کررہے ہیں ؟
ج : بالکل یہ بچوں کو سکھارہا ہوں اور 40 سال سے سکھا رہا ہوں ۔ میرے بہت شاگر د ہیں ،تعداد 50 کے قریب ہے، دو تین شاگردوں نے بہت کامیابیاں سمیٹی ۔ جن میںلیاقت اور اکرم نمایاں ہیں۔ میں نے خود سرکاری و پرائیوٹ سکولوں میں مفت سکھانے کے رابطے کئے لیکن افسوس کسی نے بھی قدر نہ کی۔ جس کے بعد دیپالپور میں اقبال آرٹ اکیڈمی بنائی جہاں کم و بیش 20 بچے ہر وقت زیرتعلیم رہتے ہیں جنہیں مختصر کورس کرایا جاتا ہے۔ اوکاڑہ بھر سے بچے سیکھنے آتے ہیں۔ اکیڈمی کے قیام کے بعد اب انہی سکولوں کے پرنسپل و مالکان پیسے دے کر طلبہ کی لکھائی ٹھیک کرارہے ہیں ۔میری کئی شاگرد بچیاں اب نانیاں اور دادیاں بن چکی ہیں۔ لاہور میں مختلف سوسائٹیوں میں آرٹ گیلریاں بنارہے ہیں۔
س : حکومت کو کیا تجاویز دیں گے ؟
ج: فن کے فروغ کے لئے بچوں کو ترغیب دینا ہوگی ، فن کی خصوصیات بتائیں ۔ بے طلبوں کے اندر طلب پیدا کرنا ہوگی۔ لکھائی کے باقاعدہ نمبر ہوتے ہیں ۔ صرف ذہانت کام نہیں آتی۔ ہر سکول میں ایک خطاط ہونا چاہیے، پورے سکول کے بچوں اور اساتذہ کی لکھائی بہتر ہوجائے گی۔ امتحان میں نمبر ملیں گے۔ دینی مدارس میں بھی خطاطی کا فروغ ضروری ہے، قرآن کی طرف رجحان بڑھے گا۔
س : جن کے پاس وسائل نہیں ، وہ کیسے سیکھیں ؟
ج : خطاطی کے لئے بنیادی طور پر تختی اور قلم ضروری ہے ۔ اگر نہ ملیں تو رجسٹر مل جاتے ہیں ۔ استاد کی ضرورت بہرحال رہتی ہے۔
س : فن کے علاوہ بھی کوئی شوق ہے ؟
سیاحت کا بہت شوق ہے، ہر سال فیملی کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتا ہوں ، قریبا ساراپاکستان گھوم چکا ہوں ۔ مختلف قدرتی مناظر کو اپنے فن میں ڈھالا ہے۔
س : تصاویر بناتے ہیں؟
ج :سیاستدانوں یٰسین وٹو ، منظور وٹو وغیر ہ اور سلطان راہی ، مصطفٰی قریشی وغیرہ کی تصاویر بنائیں ، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے دفتر میں لگی تصویر بھی میری بنائی ہوئی ہے۔ بہرحال اب تصاویر بنانے سے توبہ کرلی۔
س : کوئی دلچسپ واقعہ؟
ایک آرمی افسر شادی کارڈ لکھوانے آئے اور کہا کہ پہلے لکھ کر دکھائو۔ جب لکھا تو بولے مجھ سے غلطی ہوگئی ، میں نے غلطی پوچھی تو بولے، آپ سے نہیں ان سے غلطی ہوئی کہ اس نے ایک بہترین خطاط کو لکھ کردکھانے کو کہا۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
سادات گھرانے کے ایک بزرگ نے مجھے بلایا اور مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے، انہوں نے میرا نام سنا ہوا تھا ، بولے ، آپ سے ملنے کی خواہش تھی۔ انہوں نے مجھے بہت دعائیں دیں اور 10 روپے بطور نشانی دئیے کہ اس سے بہت برکت ہوگی ۔ واقعی اس سے بہت برکت ہوئی، وہ نوٹ آج بھی میرے پاس ہے۔ راقم نے فوری کہا کہ آپ کو خیروبرکت مل گئی لہذا اب وہ دس کا نوٹ مجھے دے دیں تو انہوں نے خوب قہقہ لگایا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک شخص جس کا نام بتانا مناسب نہیں ،مجھ سے پینٹنگ بنوا کر دبئی میں فروخت کرتا رہا۔ جس کا بہت دیر بعد علم ہوا۔