اسلام آباد (خبرنگارخصوصی+ آئی این پی) ترجمان دفتر خارجہ نے ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد خطے میں بڑھتی کشیدگی پر پاکستان نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 2 اپریل کو پاکستان نے شام میں ایرانی قونصل خانہ پر حملے کو ایک بڑی کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ جاری بیان میں کہا گیا کہ آج کی پیش رفت سفارت کاری کے ٹوٹنے کے نتائج کو ظاہر کرتی ہے، یہ صورتوں میں سنگین مضمرات کو بھی واضح کرتے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اب صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو کم کرنے کی طرف بڑھیں۔ دوسری طرف اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پہلی بار ایران اور اسرائیل کی براہِ راست محاذ آرائی ہوئی ہے، جنگ خطے میں پھیلی تو پاکستان پر بھی اثرات ہوں گے، جنگ بڑھنا اسرائیل کے سوا کسی کے مفاد میں نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی جس کے بعد ایران پر اندرون اور بیرونِ ملک سے بہت دبا ئوتھا۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ ایران نے صرف فوجی ٹارگٹس پر حملے کیے، شہری تنصیبات پر نہیں، ایران کا مقصد صرف اسرائیل کو خبردار کرنا تھا، اسرائیل چاہے گا کہ امریکا جنگ میں ملوث ہو جائے اور امریکا کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا جائے لیکن امریکا نہیں چاہے گا۔انہوں نے کہا کہ امریکی عوام کی رائے اسرائیل کے خلاف ہوئی ہے، امریکی عوام بھی چاہتے ہیں کہ غزہ جنگ ختم ہونی چاہیے۔ سفارتی سطح پر کچھ کوششیں ہو رہی ہیں کہ اسرائیل کو مزید ایکشن سے روکا جائے، خطے میں عدم استحکام کے اثرات ہمارے خطے پر بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اصل سفارتی کوششیں امریکا کی طرف سے ہوں گی کہ جنگ بڑھ نہ جائے، لگتا نہیں کہ چین اور روس ایران کی مذمتی قرار داد کی حمایت کریں، چین اور روس بھی چاہیں گے کہ ناصرف غزہ بلکہ مشرقِ وسطی میں بھی جنگ بند ہو، سعودی عرب یا کوئی اور ملک جنگ میں اضافہ نہیں چاہے گا، پاکستان سمیت مسلم ممالک کا متفقہ جواب آنا چاہیے۔ملیحہ لودھی نے کہا کہ تنا بڑھتا ہے تو اقتصادی اثرات پاکستان اور دیگر ملکوں پر پڑنے سے چیلنج بڑھ جائیں گے، امریکی انتظامیہ میں بھی احساس ہے کہ جنگ بڑھتی ہے تو اس کا امریکا کو فائدہ نہیں ہو گا۔