وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے عید کے موقع پر مختلف جگہوں پہ خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔اسکے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے فلسطین،کشمیر اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خاتمے کیلئے آواز بلند کرنے کا عہد بھی کیا ہے۔وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بلکل درست ہے کہ حضرت علامہ اقبال کی شاعری نوجوانوں کو اْمید اور نئے جہاں پیدا کرنے کی طرف اْکساتی ہے تو ساتھ ہی حکیم الامت کے کلام سے اتحاد اْمت اور دنیا میں مقام بنانے کا سبق بھی ملتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان علامہ اقبال کے کلام و پیام کو سمجھنے کے لیے مختلف فورمز پر سیمینارز،مذاکرے اورتقریری مقابلوں کا اہتمام کروائیں۔الیکٹرانک میڈیا کو اشتہارات دیتے وقت پابند کیا جائے کہ وہ قوم سازی اور نوجوانوں کی اخلاقی و سائنسی تربیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیں۔ نوجوانوں کو اقبال کا شاہین بنانے کیلئے اور ان کے اندر اعتماد پیدا کرنے کیلئے انہیں صلاحیتیوں کے اظہار کے مواقع دئیے جائیں۔ نوجوانوں کو نوکری کے حصول کیلئے دھکے کھانے کی بجائے اپنا جہان آباد کرنے کیلئے تیار کیا جائے۔عید کے موقع پر مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف نے بھی کچھ صحافیوں سے بات چیت کی ہے جس میں میاں صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کسانوں،نوجوانوں،مزدورں اور کم آمدنی والے لوگوں کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔اس بیان سے صاف محسوس ہورہا ہے کہ میاں نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ آج کل عام پاکستانی کوزندگی کی گاڑی چلانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔عام لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے کا بیانیہ بہت پسندیدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد مرکزی حکومت ملک بھر میں مزید مہنگائی کا عندیہ دے رہی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف خود اقرار کررہے ہیں کہ ابھی مزیدمشکل حالات آنے والے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کرنے کے دو طریقے ہیں پہلا حکومت انتظامی سطح پر سختی کرے اور خود ساختہ مہنگائی روکنے کیلئے کام کرے۔فلاحی ریاست کی بات کرنے والے میرے وزیر اعظم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ رمضان کا مقدس مہینے شروع ہوتے ہی سبزی، فروٹ، چکن اور دوسرے مصالحہ جات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا تھا اور رمضان ختم ہونے کے بعد ان چیزوں کی قیمتیں اب دوبارہ معمول کی طرف آرہی ہیں۔عوام کے لبوں پر ایک ہی شکوہ ہے کہ شوال کا مہینہ شروع ہوتے ہی مارکیٹ میں سبزی و فروٹ،مرغی گوشت اور دوسری چیزوں کی قیمتیں کیسے کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔فلاحی ریاست کا حصول تب ہی ممکن ہوگا جب حکومت لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے تن دہی سے کام کرتی نظرآئے گی۔حکمرانوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی جموری پاکستان میں وہ کون لوگ ہیں جو خاص دنوں میں عوام کیلئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ عوام کو ریلیف تبھی ملے گا جب پرائس کنٹرول کمیٹیاں، اپنا کام اچھے سے کریں گی۔ مہنگائی کم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ حکومت وزیر وں،مشیروں اور ممبرا ن اسمبلی کے اخراجات کم کرے۔خاص لوگوں کو حاصل خاص مراعات ختم کی جائیں۔مقروض ملک کے قومی خزانے سے اربوں روپے مختص کرکے سالہا سال تک کم آمدنی والے لوگو ں کی مالی مدد کرکے انہیں بھکاری بنانے کی بجائے غریب لوگوں کو چھوٹے کاروبار کرنے کا ہنر سکھایا جائے اور انہیں ایک ہی بار اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ اپنے بچوں کیلئے خود روزی روٹی کما سکیں۔نوجوانوں کو ہنر سکھانے کیلئے نئے ادارے کھولے جائیں،ملک بھر میں نئے صنعتی شہر آباد کیے جائیں اور ہر شہری کو کارکردگی کی بنیاد پر روز گار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
پاکستان میں یہ عید بہت سے لوگوں کیلئے غم کی خبریں لے کے آئی ہے۔غزہ میں جابر طاقتوں کے ایما پر اسرائیل نے نہتے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو مقبوضہ کشمیر میں نریندر مودی کے حکم پر مسلمانوں کو عید کے بڑے اجتماعات منعقد کرنے سے روک دیا گیا۔ اور ایک دلخراش خبر بلوچستان سے آئی جب مسافر بس سے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد نو دس پنجابیوں کو گولیاں مار کے شہید کردیا گیا۔ بلوچستان میں ایک بار پھر چلتی گاڑی کو روک کے اور شناختی کارڈ چیک کر کے پنجابیوں کا قتل عام کرنا ایسا واقعہ ہے کہ جس نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو زخمی کیا ہوا ہے۔ مگر یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ پنجابیوں کے خلاف ایسے واقعات روکنے کے حوالے سے موثر اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ لوگ بات کرتے ہیں کہ ایک طرف پنجاب کے ہر گلی محلے میں کوئٹہ چائے خانے کھل رہے ہیں اور اور دوسری طرف بلوچستان میں مزدوری کیلئے گئے ہوئے پنجابیوں کو چن چن کے مارا جا رہا ہے۔ بلوچستانوں کے لوگوں کا پنجاب بھر میں چائے خانے کھولنے سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس طرح پنجاب میں بلوچی محفوظ ہیں اسی طرح ملک کے دوسرے صوبوں میں پنجابیوں کی بھی حفاظت ممکن بنانا ہوگی۔شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ایک صوبے کے مزدوروں کو قتل کرنا بے شک ملک دشمن طاقتوں کی کوششوں سے ہی ممکن ہورہا ہے لیکن حکومت کو اپنی رٹ قائم رکھتے ہوئے ملک بھر میں قانون کی عمل داری یقینی بنانا ہوگی۔وزیر اعظم پاکستان بھی یہ نقطہ بخوبی جانتے ہیں کہ فلاحی ریاست کا حصول تب ہی ممکن ہوگا، جب ملک کے سبھی حصوں میں رہنے والے لوگوں کی جان،مال اورعزت محفوظ ہوگی۔کچھ عرصہ پہلے بلوچ نوجوان پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخلے کیلئے کوٹا حاصل کرنے کیلئے تحریک چلا رہے تھے۔ فلاحی ریاست کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں بلوچستان کے مختلف شہروں میں نئی یونیورسٹیاں قائم کریں۔ پھر بلوچستان میں نئے صنعتی شہر بسائے جائیں جہاں ستر اسی فیصد روز گار بلوچستان کے لوگوں کو دیا جائے۔کہنے کا طلب یہ کہ ملک کو فلاحی ریاست بنانا ہے تو دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے نو جوانوں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔