مسلمان ممالک کو اگر گنا جائے تو اسوقت دنیامیں 57 ممالک ایسے ہیں جو مکمل طور پر یا اکثریتی آبادی کے لحاظ سے مسلمان ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے تقریبا دو ارب لوگ مسلمان ہیں۔ اسوقت دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ہو جہاں تھوڑے بہت مسلمان موجود نہ ہوں۔ یہ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے یہ دنیامیں ہر جگہ مظلوم ہیں،بے بس اور مفلوک الحا ل لوگ ہیں۔ دنیا کی کمزور ترین قوم بن گئی ہے۔دنیا میں کوئی ملک کوئی طاقت نہ ان کی بات سننے کو تیار ہے نہ کوئی مانتا ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے جو یہودیوں نے مسلمانوں سے ہی علاقہ خرید کر قائم کیا۔ یہاں یہودیوں کی کل آبادی پاکستان کے کسی بڑے شہر جتنی بھی نہیں۔ اس نے حال ہی میں غریب،بے کس اور بے وطن فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کر کے اُنکے علاقے تباہ کر دئیے ہیں۔ بڑی بڑی عمارات ملیا میٹ کر دی ہیں۔ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی ہے ۔ 50ہزار سے زیادہ مسلمان شہید کئے۔ اس سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔یہ محض یکطرفہ لڑائی ہے کیونکہ فلسطینی لڑنے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ خان یونس کے ایک فلسطینی نے ٹھیک کہا ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کا مقابلہ غلیل سے کیسے کرسکتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر 6ماہ مسلسل بمباری کر کے فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ دنیا کے دوارب مسلمانوں نے اس ظلم کیخلاف ہر قسم کی آواز اُٹھائی۔ مظاہرے کئے۔اقوام متحدہ میں بار بار اپیلیں کیں مگرتاحال یہ جنگ بند نہ کراسکے۔اقوام متحدہ سمیت دنیا کی کسی طاقت نے بھی مسلمانوں کی چیخ و پکار نہیں سنی نہ اس پر عمل کیا۔مسلمان نہ تواسرائیل کا ظلم روک سکے نہ جنگ رکوا سکے۔ یہ ہے مسلمانوں کے 57 ملکوں کی طاقت ۔ اسرائیل نے سب مسلمانوں کوٹھینگا دکھا کراپنی مرضی سے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے ۔یہ جنگ اُس وقت بند ہو گی جب اسے یقین ہوجائیگا کہ اب کچھ نہیں بچا اور اب آئندہ کئی سالوں تک یہ لوگ سر نہیں اٹھا سکتے۔ اب فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں انکے پاس نہ خوراک ہے نہ پانی نہ ادویات۔ انکے سکول اورہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں۔ پچھلے ستر سالوں سے یہ لوگ بے گھر ہوکر ظلم کا شکار ہیں۔ مگر سارے مسلمان ملکر بھی انہیں اس ظلم سے نہیں بچا سکتے۔
یہ تو ایک فلسطین کی مثال ہے۔ بھارت میں 24 کروڑ مسلمان انتہا پسند ہندو دہشتگردی کا شکار ہیں۔ 90 لاکھ مسلمان کشمیر میں نریندر مودی کے ظلم وستم کا ہدف ہیں۔ اب وہاں انکی آبادی اکثریت سے اقلیت میں بدلی جارہی ہے لیکن انکی آواز بھی کوئی سننے کو تیار نہیںکیونکہ وہ بھی مسلمان ہیں۔ افغانستان کو امریکہ نے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ شہید ہو ئے اور اتنے ہی تقریبا ًمعذور ہوئے ہیں۔ پاکستان کی بد قسمتی کہ یہ افغانستان کا پڑوسی ملک ہے۔ لہٰذا اسے با امرمجبوری امریکہ کا ساتھ دینا پڑا۔ ہمارے 80ہزار بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ 150ارب ڈالر کانقصان اٹھایا اور اب ہم اسی امریکہ بہادر کی نظر میں دہشتگردہیں اس لئے سب نوازشات بھارت پر ۔ میانمار میں لاکھوں مسلمانوں کو زبردستی وہاں سے نکال دیا گیا۔ اب وہ در بدر بنگلہ دیش میں پھر رہے ہیں۔ شام، عراق اور لیبیا بے وجہ امریکہ بہادر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ لاکھوں لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ اب یہ ممالک بھی کھنڈر بن چکے ہیں۔ سعودی عرب معاشی طور پر ایک آسودہ حال ملک ہے۔ امریکہ بہادر نے اسے بھی معاہدوں کے ذریعے اپنے پنجوں میں دبوچ لیا ہے۔ ٹرمپ نے فرمایا تھا’’ اگر ہم تحفظ نہ دیں تو سعودی عرب چوبیس گھنٹے بھی سلامت نہیں رہ سکتا ‘‘یہ ہیں امریکہ کی مسلمانوں پر مہربانیاں۔ یاد آتا ہے پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی صاحب کا تبصرہ ’’مسلمان ممالک 0+0+0=0 ‘‘ یہ آج سے کم وپیش 70 سال پہلے کا تجزیہ ہے مگر سلام ہے مسلمانوں کی مستقل مزاجی پر صورتحال آج بھی وہی ہے۔ ہمیں تبدیلی پسند ہی نہیں۔ اگر تبدیلی کی کوشش بھی کرتے ہیں تو پیچھے کی طرف جاتے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے تمام مسلمان ممالک کی حالت وگرگوں ہے۔ اکثر مسلمان ممالک مقروض ہیں۔ عسکری طور پر بہت کمزور ہیں۔ 57 ممالک میں ایک بھی ایسا مسلمان ملک نہیں جسے اہل مغرب کے مقابلے پیش کیا جاسکے۔ موجودہ دور میں ترقی کا انحصارمحض دو چیزوں پر ہے۔ اول تعلیم اور دوسری ریسرچ یا ٹیکنالوجی۔ اگر ان دو چیزوں پر دسترس حاصل ہو جائے تو باقی چیزیں یعنی معیشت اور عسکری طاقت خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں۔بد قسمتی سے مسلمان ممالک ان دونوں نعمتوں سے محروم ہیں۔ جب دنیا سکول کا لجز اور یونیورسٹیاں بنا رہی تھی تو یہاں مسلمان تاج محل بنا رہے تھے یا ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک چھوٹی سی قوم نے ہزاروں میل دور سے آکر ہمیں اور بہت سے مسلمان ممالک کو غلام بنالیا۔ اپنی مثال لیں۔ پاکستان مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ مگر ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ کرپشن بے تحاشہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام دن بہ دن بیکار ہو رہا ہے اور ٹیکنالوجی کی یہ حالت ہے کہ پیپر پن تک چین سے منگواتے ہیں۔ اگر ہم نے باعزت طور پر اس دنیا میں رہنا ہے تو ہمیں ان اہم خصوصیات کو اپنانا ہوگا۔ میں ذاتی طور پر جب اپنی یا باقی مسلمانوں کی پستی پر غور کرتا ہوں تو مجھے جاپانی سکالر کا وہ فقرہ یاد آتا ہے ’’مسلمان اس لئے ترقی نہیں کر سکتے کہ یہ اس دنیا کے متعلق سوچتے ہی نہیں۔ یہ ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کا سوچتے ہیں اور اس کیلئے تیاری کرتے ہیں‘‘ بد قسمتی سے ہمارے علماء کرام بھی ہمیں اسی زندگی کیلئے تیار کرتے ہیں ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے آدھی دنیا فتح کی تھی۔ اس وقت کی بڑی بڑی سلطنتوں کو تہس نہس کر ڈالا تھا۔ مسلمان اتنی عظیم عسکری طاقت کیسے بنے۔حضور کریم ﷺ خود بھی کئی جنگوں میں شریک ہوئے اور انکی جنگی تیاری کی بہترین مثال اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ میئر نے دی تھی۔ اس نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا’’ یا در کھو دنیا یہ نہیں دیکھتی کہ فلاں قوم کتنی خوشحال تھی۔ کتنی پرتعیش زندگی گزارتی تھی۔ دنیا صرف فاتح اور مفتوح کو یادرکھتی ہے‘‘ پھر ایک دفعہ جب وہ امریکہ سے ہتھیاروں کا سودا کر رہی تھی تو امریکی سفیر نے سوال کیا ’’میڈم یہ آپ نے فوجی طاقت بننے کا جذبہ کہاں سے حاصل کیا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’مسلمانوں کے پیغمبر سے‘‘ سفیر نے پھر پوچھا’’ وہ کیسے؟‘‘ جواب دیا کہ’’ مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے تو یہاں بہت سے یہودی قبائل تھے جو کافی خوشحال اور طاقتور تھے لیکن جب مسلمانوں کے پیغمبر اس دنیا سے کے رخصت ہوئے تو یہاں ایک بھی یہودی قبیلہ نہیں بچا تھا۔ زیادہ تر مسلمان ہو چکے تھے باقی وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کے پیغمبر کی موت کے وقت انکے جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ گھر میں دیے کیلئے تیل نہیں تھا لیکن دیوار پرسات تلواریں لٹک رہی تھیں۔‘‘ کاش مسلمان بھی اس سنت پرعمل کرتے۔