عمران خان کے باعث کرکٹ کی زبان ہماری سیاست کی زبان ہو گئی ہے۔ اب سیاست میں چھکے، چوکے اور کلین بولڈ کے کے الفاظ استعمال میں آتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مخصوص سیاسی حالات کے باعث عوام میں ملک بھر میں سب سے بڑا آرمی چیف ہی سمجھاجاتا ہے۔ ’’مزاح نگاروں کا کمانڈ رانچیف‘‘جبار مرزا کی سید ضمیر جعفری کے بارے تازہ لکھی کتاب کا نام ہے۔ جبار مرزا ادب اور صحافت میں ایک معتبر نام ہے۔ ان کے نام کے ساتھ ادیب، صحافی، کالم نگار یا ایڈیٹر لکھنا چنداں ضروری بھی نہیں۔ ہر اہم صحافی کی طرح وہ بھی ایک زمانہ میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے لئے لکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے سید ضمیر جعفری کو اردو کے مزاح نگاروں، شاعروں اور ادیبوں میں سب سے بڑا لکھنے کیلئے کمانڈر انچیف کا لفظ برتا ہے تو یہ کچھ غیر مناسب حال بھی نہیں۔
ریٹائرڈ میجر جنرل احتشام ضمیر، سید ضمیر جعفری کے بڑے بیٹے تھے۔ ہر برس 12مئی کو سید ضمیر جعفری کی برسی پر انہیں اس کتاب کا انتظار رہتا۔ دراصل جبار مرزا ایک عرصہ سے اس کتاب کو لکھنے میں مصروف تھے۔ یہ کتاب ان کے بیس پچیس برس کی مسلسل تحقیق کا نتیجہ ہے۔ انتھک محنت کے بعد یہ کتاب یکم جنوری 2024ء کو شائع ہو سکی۔ کالم نگار کا مختصر سا کالم اس عظیم کتاب کے سارے رنگ و بو اور نقش و نگار پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کتاب میں بہت کچھ ہے،سید ضمیر جعفری کے بارے میں بہت سی نئی باتیں اور واقعات۔ بدقسمتی سے میجر جنرل ریٹائرڈ احتشام ضمیر، جبار مرزا کی اس کاوش کو کتابی شکل میں نہ دیکھ سکے۔ احتشام ضمیر مئی2015ء کو ایک حادثے کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گئے۔ احتشام ضمیر طالب علمی میں انگریزی، اردو کے بیسٹ سپیکر اور گارڈن کالج اسٹوڈنٹ یونین کے سیکرٹری بھی رہے۔ پھر انہیں فوج میں کمیشن مل گیا۔ انہیں فوجی وردی میں دیکھ کر ضمیر جعفری نے ایک نظم لکھی، اس کا آخری شعر یوں تھا:
زندگی کا اس سے بڑھ کر بانکپن کوئی نہیں
تیری وردی سا مقدس پیرہن کوئی نہیں
وہ اپنی فوجی سروس میں آئی ایس آئی انٹرنل ونگ کے سربراہ بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ پر اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق کے باعث اخبار میں کالم لکھنا شروع کر دیا۔ کالم نگار ان دنوں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں کالم لکھا کرتا تھا۔ اس موقعہ پر اس نے’’سید ضمیر جعفری کا وارث‘‘کے عنوان سے ایک کالم لکھاجو 02فروری 2007ء کو شائع ہوا۔ اس کالم سے ابتدائی چند سطریں۔۔۔
’’حاضر سروس اداکارہ ریما خاں کے بعد ریٹائرڈ میجر جنرل احتشام ضمیر بھی کالم نگاری کے میدان میں آن اترے ہیں۔ یہ دونوں قلمکار اپنی اپنی قلم دوات سنبھالے ادھر آئے ہیں۔ کیا پاکستان میں فوجی افسران ناک کی سیدھ میں چلنے کے عادی ہیں؟ کیا وہ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں؟ میرے ذہن میں یہ سوال اس وقت پیدا ہوئے جب میجر جنرل ریٹائرڈ احتشام ضمیر نے اپنے پہلے کالم میں یہ اعلان ضروری سمجھا کہ ان کے کالم محض ادبی نوعیت کے ہونگے۔ سیاسی ہر گز نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے احتشام ضمیر اپنی سروس میں سیاستدانوں کی ’’نگرانی‘‘کرتے ضمیر کے ہاتھوں اتنے زچ ہو چکے ہیں کہ اب وہ لفظ سیاست سے بھی الرجک دکھائی دے رہے ہیں۔ بہر حال وجہ جو بھی ہے، اب وہ صرف ادبی نوعیت کے ہی کالم لکھیں گے۔ بڑے اصیل جانور بھی کبھی کبھار دوسروں کی کھرلی میں منہ مار لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اب دیکھیں یہ عزت مآب اپنی راہ سے کب بدکتے اور بھٹکتے ہیں۔ پھر ادب اور بے ادبی میں فرق ہی کتنا ہے۔ کبھی فوجی بیرکوں سے شہر تک خاصا فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ پھر ہماری جمہوری نشوونما اور ترقی نے یہ فاصلہ ختم کر کے رکھ دیا ہے‘‘۔
سید ضمیر جعفری نے بہت کچھ لکھا ہے ان کی 25شاعری اور 21کے قریب نثری کتابیں موجود ہیں۔ دوست پبلیکیشنز نے انکی چند برس کی ڈائریاں بھی شائع کی تھیں۔ پھر یہ سلسلہ رک گیا۔اللہ جانے کیوں؟ ان نثری تبرکات کی اشاعت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ سید ضمیر جعفری بہت بڑے انسان تھے۔ دیانت اور استغناء کا یہ عالم کہ اسلام آباد میں ملک بھر کے شاعروں، ادیبوں صحافیوں کو پلاٹ دلوانے والا خود اس سے محروم رہا۔ ان کی غیر ت نے پلاٹ لینا گوارہ ہی نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے ریٹائرمنٹ پر انہیں اسلام آباد چھوڑنا پڑا کہ وہاں انکے پاس کوئی گھر نہیں تھا۔
سید ضمیر جعفری کو اپنی بڑائی کا خود بھی احساس تھا۔ ایک مشاعرہ کے بعد چائے پیتے ہوئے صدر مشاعرہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق انہیں کہنے لگے۔ جب ہمارے ساتھ سروس کرتے تھے تو ان دنوں اتنی اچھی شاعری تو نہیں کرتے تھے؟ بے دھڑک بولے: حضور!یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے‘‘۔ کالم کے آخر میں تبرک کے طور پر ان کی ایک نظم:
اعتراف
منیٰ سعودی عرب ستمبر1985ء میں دوسرے حج کے موقعہ پر کہی گئی۔
شیطان کے بت پر جب میں نے
پتھر تولا
تو وہ بولا
ارے توبھی ہے ان پتھر پھینکنے والوں میں
تو ویر مِرا،تو ضمیرمِرا،تو سفیر مِرا
تو پیرمِرا
ارے تو بھی؟
تو یار چلترکارمِرا
مجھ سے بڑھ کر۔۔۔۔۔۔مجھ سے بہتر
کرتا ہے کاروبار مِرا
ارے تو بھی ہے ان پتھر پھینکنے والوں میں
اس کے لہجے میں درد بہت
میرے چہرے پر گرد بہت
میں اس کو پتھر مار آیا
پر اندر سے اپنے انساں کو ہار آیا
٭…٭…٭