میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اقدار اور اخلاقیات کے زوال اور تنزلی کا ذکر کیا تھا اور ملک عزیز میں اِس بڑھتے ہوئے زوال اور گراوٹ کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے ایک سات نکاتی لائحہ عمل کا خاکہ بھی پیش کیاتا کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے اِس منفی رْحجان کا تدارک بھی ممکن ہوسکے۔اقدار اور اخلاقیات کے سنجیدہ معاملے پر میرے قارئین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اکثریت کی رائے یہ تھی کہ یہ طے ہو چکا کہ اقدار اور اخلاقیات کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ٹھوس بنیاد ہوتی ہیں اور اْس ٹھوس بنیاد پر مستقبل کا راستہ تلاش کیا جاسکتاہے اور ہر ترقییافتہ قوم کچھ بڑے اْصولوں پر کاربند ہو کر بڑے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سے مکتبہ فکر کے لوگوں کی جانب سے اکثر اوقات اقدار اور اخلاقیات کے زوال کی نشاندہی کی جاتی ہے اور اِس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہماری اخلاقیات اور اقدار زوال پذیر ہیں یا بگاڑ کا شکار ہیں لیکن یہاںیہ سوال اْٹھتا ہے کہ اِس بگاڑ اور تنزلی کو روکنے کے لیے فوری طور پر کیا ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور وہ کون کرے؟ مثال کے طور پہ ہر شخص چاہتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرے لیکن ترقی اور خوشحالی کے لیے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کیا کیے جائیں اور وہ کون کرے؟ ہر شخص اصلاح معاشرہ چاہتا ہے لیکن معاشرے میں اصلاح کے لیے عملی اقدامات کیا ہوں اور کون سے طبقات اور ادارے اِس اصلاح کا محرک ہوں؟ دوسرے لفظوں میں مسئلے کی نشاندہی تو ہو چکی اور خرابی کا ادراک بھی ہو چکا تو اب اِس کے حل کے لیے کون سے عملی اقدامات کیے جائیں؟ بلا شبہ یہ بہت اہم نکات ہیں جن پر قومی سطح کے مباحث کا آغاز کرنا بہت ضروری ہے۔
تاریخی طور پر اگر دْنیا میں قوموں کے عروج و زوال پر ایک سرسری نظر دوڑائی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے کچھ اْصول و ضوابط طے کیے اور محنت اور لگن کو اپنا شعار بنایا وہ قومیں بہت تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کرنے لگیں اور دوسری طرف جن قوموں نے قدرت کے بڑے اصولوں کو پامال کیا وہ رسوا ہوئیں اور آج کوئی اْن کا نام لیوا بھی نہیں ہے۔ اِس ضمن میں چین، جاپان اور جرمنی کی ترقی اور خوشحالی کی مثال سب کے سامنے ہے جنہوں نے کچھ زریں اْصول طے کیے اور اپنی سیاست اور معیشت کوایسی بلندی پر لے گئے کہ دْنیا کی دوسری اقوام اْن کی ترقی پر حیران ہیں۔ اور دوسری طرف افریقہ اور ایشیا اور مشرق وسطی کے کچھ ممالک بھی ایسے ہیں جنہوں نے قدرت کے بڑے اْصولوں سے انحراف کیا اور دْنیا میں وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہ کر سکے جس کا کوئی بھی آزاد اور خود مختار ملک خواب دیکھتا ہے۔
میری رائے میں اقدار یا اخلاقیات کے اْصول طے کرنے ,اْن کا پرچار کرنے اور عمل درآمد کے لیے چہار سطحی فوکس بہت ضروری ہے۔ اور یہ چار عناصر ریاست، ریاستی ادارے، سول سوسائٹی اور میڈیا ہیں جن کی ادارہ جاتی ذمہ داریوں میں اقدار کی ترویج اور اصلاح معاشرہ سے متعلق پہلوئوں کو واضح طور پر شامل کرنا اشد ضروری ہے۔
ریاست سب سے اہم عنصر ہے کہ ریاست کا تمام معاملات کی ریگولیشن میں کلیدی کردار ہے۔ ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگوں کے لیے اقدار و اخلاقیات طے کرتی ہے۔ ریاست لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے تمام معاملات کو دیکھتی ہے۔ اِس لیے یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اخلاقی اصول طے کرے، اْن کا پرچار کرے اوراْن پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ اگر ریاست اپنے وجود کی عقلی اور اخلاقی دلیل پر قائم ہوگی تو وہ ریاست میںبسنے والے خاص و عام سے اخلاقیات و اقدار کی پاسداری کی توقع کر سکے گی اور یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست کے تحت کام کرنے والے تمام ادارے ریاست کی ویژن کو آگے لے جانے میں مدد گار ہوں اور ریاستی نمائندوں کا بھی طے شدہ ریاستی اْصول و ضوابط کی پاسداری انتہائی اہم ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقدار و اْصول و ضوابط طے کرے اور عمل درآمد کا فرض بھی ادا کرے۔
ریاستی ادارے بھی اقدار و اخلاقیات کی ترویج کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ ادارے میں کام کرنے والے لوگوںکو اقدار سے متعلق آگاہی ہو۔ پھر اْس کے بعد ذیلی اور ماتحت اداروں تک اِس کا دائرہ کار بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن چونکہ پاکستان کی تمام پبلک اور پرائیویٹیو نیورسٹیز کی رہنمائی کرتا ہے اِ س لیے کمیشن تمام اعلی تعلیم کے اداروں کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ تعلیمی کورسز میں اور نصاب میں اقدار اور اخلاقیات سے متعلق مواد کو شامل کریں۔ مجھے گذشتہ چند سالوں چند یونیورسٹیز کے نصا ب دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ شخصی تربیت سے متعلق مواد نصاب کا حصہ نہیں تھا جو کہ میرے لیے ایک حیران کن حقیقت تھی۔باقی ریاستی ادارے بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقدار اور اخلاقیات کو ترویج کا جامع پروگرام مرتب کر سکتے ہیں۔
دْنیا بھر میں سول سوسائٹی کا ریاست کے وسیع تر مفاد ،ریاست میں بسنے والے لوگوں کے حقوق اور سماجی ہم آہنگی کے ضمن میں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سول سوسائٹی ایک مضبوط اور تواناآواز ہوتی ہے اورسول سوسائٹی ارکان کی حکومتِ وقت کی پالیسی پر نظر بھی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی چند سالوں سے سول سوسائٹی بھی بڑی متحرک ہو چکی ہے اور عوامی مسائل کو اْجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سول سوسائٹی کا کردار سماجی اور قومی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے اور سول سوسائٹی معاشرے میں اقدار سے متعلق ایسااہم کردار ادا کر سکتی ہے جو جمہوری اور جامع معاشرے کے لیے دوررس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
اقدار کے فروغ کے لیے میڈیا کا بھی بہت اہم کردار ہے۔گذشتہ چند سالوں میں میڈیا کی وجہ سے عوامی شعور اور آگاہی میں بے انتہا اضافہ دیکھنے کو آیا ِ اِس لیے پاکستانی میڈیا فہم و تفہیم اور رواداری کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا کو ادارہ جاتی طور پہ پابند بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ایئر ٹائم میں اقدار اور اخلاقیات سے متعلق مواد کو جگہ دے اور مجموعی طور پر معاشرے میں اقدار کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
اقدار اور معاشرتی اخلاقیات کا فروغ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس میں ریاست، اداروں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی فعال شرکت نہایت ضروری ہے۔ ریاست اِن اقدار کی ترویج کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک طے کرتے ہوئے اِس امر کو یقینی بنائے کہ قوانین منصفانہ اور معاشرتی اقدار کی عکاسی کرتے ہوں۔ ریاست کو ایسی پالیسیوں کو فروغ دینا چاہیے جن میں سب کے لیے احترام، رواداری اور تمام مکاتب ِ فکرکی شمولیت بھی لازم ہو۔ سول سوسائٹی اور میڈیا بھی معاشرے کو متحرک کرنے ، اقدار اور اخلاقیات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ریاست ، ادارے، سول سوسائٹی اور میڈیا اقدار اور معاشرتی اخلاقیات کو فروغ دے کر ایک منصفانہ، مربوط اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ کہیں سے اِس ضمن میں ابتداء کر دی جائے۔
٭…٭…٭