حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک جملہ انسانی سوچوں میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے۔ دقیق مباحث اور دلائل کے انبار قلب نظر میں اضطراب تو پیدا کرتے ہیں اور دلائل خرد کی تشنگی کو مزید بڑھا تو ضرور دیتی ہیں لیکن انسانی قلب کی کیفیات کو بدلنے سے قاصررہتی ہیں۔ حکمت سے مراد دانائی اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ جو بات اس کے دل میں بیٹھ جائے کبھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔ تو جس بندے کو ایسا حکمت بھرا انداز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو جائے اور دوسرے اس کی باتوں کے قائل ہوتے جائیں اوراس کی باتیں دلوں پر راج کریں تو وہ سمجھ جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے شمار بھلائیاں عطا فرمائی ہیں۔ حکمت و دانش کی یہ دولت اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا ہے جسے یہ مل جائے وہ بہت ہی خوش قسمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دی گئی۔(سورۃ البقرہ)
خیر کثیر سے مراد مال و دولت، جاہ و جلال یا پھر منصب و شہرت نہیں بلکہ اس سے مراد فکرو خیال کی وہ پاکیزگی عطا کی گئی ہے کہ وہ خودخیر کا پیکر بن گیا اور دوسرے اس کی خیر کو ٹھکرا نہ سکیں۔ کائنات میں پائی جانے والی ہر حکمت اور دانش کی بات کسی نہ کسی نبی کا فیضان ہوتی ہے اس لیے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حکمت بھری بات مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ وہ اسے جہاں بھی پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ (ترمذی )
یعنی حکمت تو ہے ہی ایمان کا ثمر اور بندہ مومن کا مطلوب۔ اسے جہاں سے بھی کوئی حکمت بھرا کلمہ ملے اسے کسی صاحب ایمان کا ہی فیضان سمجھ کر حاصل کر لے۔ یہ بھی نہ دیکھے یہ کلمہ کس کی زبان سے ادا ہو رہا ہے بس یہ دیکھے کہ وہ بات حکمت کی ہے اور اپنی گمشدہ میراث سمجھ کر اس کی طرف لپکے۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بہترین مجلس وہ ہے جس میں حکمت کی بات کی جائے۔ (المعجم الکبیر )
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حسد صرف دو آدمیوں پر کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جسے اللہ نے مال و دولت دیا اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی وہ اس پر عمل کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ )
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان نے اپنے بھائی کو حکمت کی بات سے بڑھ کر بہترین تحفہ نہیں دیا۔( شعب الایمان )